سکھر بیراج کالونی میں آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز پر دہشت گردوں کے خودکش حملے ........ کیا دہشت گردوں کو نکیل ڈالنا اب ضروری نہیں ہو گیا؟
سکھر بیراج کالونی میں آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر پر پانچ خودکش حملہ آوروں کے حملے میں آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر میجر ذیشان سمیت چار افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہو گئے جبکہ پانچوں حملہ آور خود بھی دہشت گردی کی اس واردات میں مارے گئے۔ حملے کے وقت یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جس سے متعدد ملحقہ سرکاری و نجی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ دھماکوں کی آواز کئی کلو میٹر دور تک سنی گئی اور لوگ خوفزدہ ہو کر گھروں سے باہر نکل آئے۔ ترجمان شہباز رینجرز کے مطابق دو خودکش حملہ آوروں نے ہیڈکوارٹر کے اندر خود کو دھماکے سے اڑایا۔ حملے کے بعد رینجرز اور دوسری فورسز کے دستے طلب کئے گئے‘ اس دوران سکیورٹی اہلکاروں اور دہشت گردوں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز پر یہ حملے روزہ افطار ہوتے ہی کئے گئے۔ خبر رساں ایجنسی ”رائٹر“ نے ڈی ایس پی سکھر مسعود بنگش کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد دس تھی جبکہ سرکاری خبررساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق بیراج کالونی کے علاقے میں چھ دھماکے ہوئے۔
بعض دیگر ذرائع کے مطابق دہشت گردوں نے کمشنر ہاﺅس میں کمشنر کے خاندان کو یرغمال بنالیا تھا۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حساس اداروں نے کچھ عرصہ قبل دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا جن سے اسی علاقے میں تفتیش ہو رہی تھی۔ خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حملہ آوروں نے دو دھماکے پولیس کی ایک عمارت کے باہر کئے جبکہ آئی ایس آئی دفتر کے باہر کاربم دھماکہ کیا گیا۔ حملہ آوروں نے واردات کے وقت اندھا دھند فائرنگ بھی کی اور سکیورٹی اہلکاروں اور دفاتر پر دستی بم پھینکے جبکہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے پہلے راکٹ فائر کیا اور پھر فائرنگ شروع ہوگئی۔ ڈی آئی جی جاوید اوڈھو نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ دہشت گرد حملے میں کمشنر ہاﺅس کا ایک ملازم بھی جاں بحق ہوا ہے۔
دہشت گردوں کی جانب سے حساس اداروں اور سکیورٹی حکام و اہلکاروں کو ٹارگٹ کرکے دہشت گردی کی گھناﺅنی واردات کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے‘ اس سے پہلے جی ایچ کیو راولپنڈی‘ پریڈ لین اسلام آباد‘ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز لاہور‘ ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز لاہور‘ نیول ہیڈکوارٹرز اور مہران ایئربیس کراچی‘ کامرہ ایئر بیس‘ پولیس ٹریننگ سنٹر مناواں لاہور اور ملک کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی کی متعدد دیگر عمارتوں کو دہشت گردوں کی جانب سے پوری دیدہ دلیری کے ساتھ نشانہ بنایا جا چکا ہے جبکہ وہ سیاسی شخصیات اور سکیورٹی حکام کی ٹارگٹ کلنگ کے مقاصد میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال جہاں ملک میں امن و امان کی بحالی میں سکیورٹی اداروں کی ناکامی کی دلیل ہے‘ وہیں ان اداروں کی اپنی سکیورٹی میں ناکامی ان کیلئے لمحہ¿ فکریہ بھی ہے۔ سکھر بیراج کالونی میں جہاں آئی ایس آئی اور پولیس کے دفاتر‘ کمشنر ہاﺅس‘ رینجرز اور ڈی آئی جی پولیس ہاﺅسز اور ججز لاﺅنجز سمیت اہم اور حساس عمارتیں واقع ہونے کے باعث یہ علاقہ ہائی الرٹ زون میں شمار ہوتا ہے‘ خودکش حملہ آوروں کا‘ چاہے انکی تعداد پانچ تھی یا دس‘ جدید اور بھاری اسلحہ بشمول راکٹ لانچر اور ہینڈ گرنیڈوں سمیت بغیر کسی روک ٹوک کے داخل ہونا اور پھر ہدف تک پہنچ کر واردات ڈالنا بدترین سکیورٹی لیپس کی عکاسی کرتا ہے جبکہ دیدہ دلیری پر مبنی اس واردات سے پوری دنیا میں ہمارے سکیورٹی اداروں کی کمزوریوں کا پیغام پہنچا ہے۔
دہشت گردی کے چاہے جو بھی محرکات ہوں اور دہشت گردوں کے چاہے جو بھی عزائم ہوں‘ اس سے قطع نظر سکیورٹی اداروں کی دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے میں ناکامی دہشت گردوں کے سامنے حکومتی رٹ کمزور ہونے اور انتظامی مشینری کے ناکام ہونے کی عکاسی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں بلاشبہ پاکستان نے ہی سب سے زیادہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں‘ جبکہ ملکی معیشت کی تباہی اور خوف و ہراس کی فضا میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کا عمل رکنے سے بھی بیرونی دنیا میں ہمارا تشخص خراب ہوا‘ اسکے باوجود دہشت گردی بشمول خودکش حملوں کی وارداتوں کی پیش بندی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے اور دہشت گردوں کے حوصلے مزید بلند ہو رہے ہیں تو ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور سکیورٹی کے معاملات میں موجود کمزوریوں کا کھوج لگا کر انہیں ہر ممکن طریقے سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘ ورنہ ملک‘ جمہوریت اور امن کے درپے دہشت گرد اور انکے سرپرست اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کی سہولت پاتے رہیں گے اور یہاں قانون کی نہیں‘ دہشت گردوں کی حکمرانی ہو گی اور ریاستی اتھارٹی بے وقعت ہو کر رہ جائیگی۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہماری ایجنسیوں کے پاس ملک کے کسی بھی شہر میں دہشت گردوں کے داخل ہونے کی مکمل معلومات ہوتی ہیں جس کے بارے میں متعلقہ اداروں کو سرکلر بھی جاری کئے جاتے ہیں جن میں دہشت گردوں کی تعداد اور انکے ممکنہ اہداف کی بھی نشاندہی کردی جاتی ہے‘ اسکے باوجود متعلقہ سکیورٹی ادارے ان دہشت گردوں پر واردات سے پہلے ہی قابو پانے اور انہیں اپنے اہداف تک پہنچنے سے روکنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اب تک ہمارے سکیورٹی اداروں میں دہشت گردی کی جتنی وارداتیں ہوئی ہیں‘ اسکے پیش نظر تو اب تک تمام سکیورٹی لیپس دور کرکے دہشت گردوں کے آئندہ کے تمام عزائم ناکام بنا دیئے جانے چاہئیں تھے‘ مگر سکھر بیراج کالونی میں دہشت گردوں کے دیدہ دلیری پر مبنی خودکش حملوں سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ سکیورٹی اداروں اور حکومتی انتظامی مشینری نے اپنی سابقہ غلطیوں سے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس صورتحال میں قوم کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا ہونا فطری امر ہے کہ جو سکیورٹی ادارے اپنی حفاظت نہیں کر سکتے‘ وہ عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کے تقاضے کیسے نبھا پائیں گے۔ چنانچہ ملکی اور قومی سکیورٹی کے معاملہ میں عوام کے تحفظات اسی وقت دور ہو سکتے ہیں جب دہشت گردوں کو بے لاگ اور نتیجہ خیز اپریشن کے ذریعے نکیل ڈالی جائیگی۔ جو دہشت گرد رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی بے گناہ انسانوں‘ سکیورٹی اہلکاروں کا خون ناحق بہا رہے ہیں اور سکیورٹی کے اداروں کے علاوہ مساجد کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں‘ وہ کسی رورعایت کے مستحق نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ شعائر اسلامی نہیں‘ اپنے انسانیت اور امن دشمن جنونی ایجنڈے کی پیروی کر رہے ہیں۔علم کی روشنی پھیلانے والے تعلیمی اداروں‘ انسداد پولیو ویکسیئن پلانے والے رضاکاروں اور خدائے بزرگ و برتر کی فیوض و برکات سمیٹنے کے مقدس مہینے میں نمازیوں کو ٹارگٹ کرنیوالا دہشت گرد اگر اسلام کے نام پر یہ سب کچھ کرے تو اس سے بڑی مذہب کی توہین ممکن نہیں اور پاکستانی معاشرے کو اس دہشت گردی کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر جہاد کرنا ہو گا۔ اگر ایسے دہشت گرد عناصر کی جامع اپریشن کے ذریعے سرکوبی کی جائیگی تو اس میں قوم کی تائید بھی حکومتی انتظامی مشینری کے شامل حال ہو گی جبکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں خراب کئے گئے ملکی اور قومی تشخص کی بحالی کیلئے بھی دہشت گردوں کیخلاف بے رحم اپریشن کی ضرورت ہے۔دہشت گرد دشمن ملک کے فرستادہ بھی ہو سکتے ہیں۔اسکا بھی جائزہ لینا ضروری ہے۔
اس سلسلہ میں وزیراعظم میاں نوازشریف اور انکی حکومت خاصی پرعزم نظر آتی ہے اور وزیراعظم متعدد بار یہ دوٹوک اعلان کر چکے ہیں کہ ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانا انکی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ اس سلسلہ میں برطانوی میڈیا کے حوالے سے یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے طالبان کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے حکومتی پالیسی میں تبدیلی کا واضح اشارہ دے دیا ہے اس لئے اب جنگجوﺅں کیخلاف عسکری کارروائی کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اگر دہشت گرد حکومت کی مذاکرات کی پیشکش کو اسکی کمزوری سمجھتے ہوئے دہشت گردی کے ذریعے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے پہلے سے بھی زیادہ سرگرم ہو گئے ہیں جس کا واضح ثبوت سکھر آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز پر خودکش دھماکوں کی صورت میں سامنے آچکا ہے تو اب حکومتی عسکری قیادتوں کو یکسو ہو کر دہشت گردی کے تدارک کی ٹھوس اور مو¿ثر حکمت عملی طے کرنی چاہیے اور اس پر عملدرآمد کا فوری آغاز کر دینا چاہیے تاکہ دہشت گردوں کو اپنے آئندہ کے عزائم پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے کا موقع نہ مل سکے۔ ہمارے پاس مزید نقصانات اٹھانے کیلئے اب کچھ نہیں بچا اور کل کو خدانخواستہ ملکی سلامتی بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں پامال ہو سکتی ہے۔ حکومت کو اسبات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے مستقل فیلئرز کے بعد اگر انکی اصلاح کی ضرورت ہے تو اس کیلئے بھی منصوبہ بندی کی جائے۔