ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلا کر 30 روز میں فیصلہ کیا جائے : سپریم کورٹ نے کیس نمٹا دیا
ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلا کر 30 روز میں فیصلہ کیا جائے : سپریم کورٹ نے کیس نمٹا دیا
اسلام آباد(نوائے وقت نیوز)سپریم کورٹ نے کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کا کیس نمٹا دیا۔ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلانے اور 30 روز کے اندر فیصلہ کرنے کا حکم۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس نے کیس خراب کر دیا ہے۔ بیوہ زندگی بھر دھکے کھاتی پھرے گی۔ سپریم کورٹ میں ٹیکسی ڈرائیور قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ٹیکسی ڈرائیور کی بیوہ کے کہنے پر ایف آئی آر درج ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ گواہی کیوں نہیں دیتے جب فائرنگ ہوئی بہت سے لوگوں نے دیکھا۔ ٹیکسی ڈرائیور کی بیوہ نے ایف آئی آر میں بہت سے لوگوں کا ذکر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے جو ایف آئی آر درج کی وہ ناقص اور نامکمل ہے۔ پولیس نے کیس خراب کر دیا ہے۔ اب وہ عورت زندگی بھر دھکے کھاتی پھرے گی۔ بے حسی کی حد ہے کہ اتنے بڑے واقعے میں بھی ناقص ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا بتایا جائے کہ سینئر پولیس افسر نے ایف آئی آر درج کیوں نہ کی؟۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ رینجرز کے خلاف اس نوعیت کا تیسرا یا چوتھا کیس ہے۔ شاید ادارے میں ڈسپلن کی کمی ہے۔ کیا رینجرز اہلکاروں کو ہدایت دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرفراز شاہ قتل کیس کے بعد تحریری قواعد و ہدایات جاری کیں۔ یہ ہدایات اردو میں بھی تحریری طور پر اہلکار کی جیب میں ہوتی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہدایات صرف جیب میں رکھنے سے ڈسپلن قائم نہیں ہو جاتا۔ پولیس کو اپنی مدعیت میں یہ مقدمہ درج کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے فارغ ہونے کے بعد ٹیکسی ڈرائیور کی بیوہ کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ عدالت نے کیس نمٹاتے ہوئے مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلانے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ کیس کا فیصلہ 30 روز کے اندر کیا جائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں مناسب دفعات شامل کی جائیں۔ تحقیقات کے عمل میں کوئی خلا موجود نہیں رہنا چاہیے۔ عدالت نے مقدمہ بیوہ کی مدعیت میں درج کرنے پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلی اینٹ ہی غلط رکھ دی ہے، سارا کیس خراب ہوجائے گا،کیس خراب ہوا تو ایف آئی آرد رج کرنیوالا پولیس اہلکار ذمے دار ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رینجرز نے سرفراز شاہ کیس سے کوئی سبق نہیں سیکھا،رینجرز کی بربریت کے خلاف یہ چوتھا کیس ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو طلب کریں گے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو تربیت دی جاتی ہے کہ دباﺅ میں کیسے ٹھنڈا رہنا ہے ،رینجرز اہلکار گاڑی کے ٹائر پر بھی گولی مارسکتا تھا، سیدھی گولی کیوں ماری؟ سپریم کورٹ نے ٹیکسی ڈرائیور ہلاکت کی ایف آئی آر کے بیوی کی مدعیت میں اندراج پر برہمی کا اظہار کیا ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے سرفراز شاہ اور اس کیس میں کوئی فرق نہیں،مانتا ہوں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارو ں کے اہلکاروں کو بھی ماراجارہا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ انسانی غلطی نہیں جرم ہے۔
ٹیکسی ڈرائیور کیس