ٹیلنٹ ہنٹ ۔۔۔ اختر رسول کیا ہوا تیرا وعدہ؟
قومی ہاکی ٹیم کے ہیڈ کوچ و منیجر چودھری اختر رسول کہتے ہیں کہ ہم ایشیا کپ کے لئے آل آﺅٹ جائیں گے کیونکہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ تربیتی کیمپ میں کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے بھرپور محنت کر رہے ہیں۔ ہمارے پلیئرز کی بنیاد کمزور ہے یہی وجہ ہے کہ ان کو بال لینے اور گیند روکنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان بنیادی خامیوں کی وجہ سے ہی ناصرف ہمیں گول ہو جاتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ 80 فیصد گول ضائع بھی کر دیتے ہیں۔ بحیثیت ہیڈ کوچ و منیجر ٹیم کی کارکردگی کا ذمہ دار ہوں لیکن گراﺅنڈ میں تو پرفارم کھلاڑیوں نے کرنا ہے۔ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتا نہیں ہے۔ اپنے پلیئرز کو بہترین ٹریننگ کروا رہے ہیں۔ کوشش ہے کہ ان کے کھیل میں وہ پرفیکشن آ جائے جس کی اِن دنوں ہمیں ضرورت ہے۔ شکیل عباسی کے حوالے سے اختر رسول نے کہا کہ ٹیم کو اس کی ضرورت تھی، اسے واپس بلا لیا۔
دماغی طور پر مدد کرنا ہو گی اور جسمانی طور پر بھی متحرک ہونا چاہئے۔ اختر رسول کو مشل وین ڈین کے بعد قومی ہاکی ٹیم کا کوچ مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی کوچنگ میں ٹیم نے اولمپکس میں حصہ لیا۔ چیمپئنز ٹرافی بھی کھیلی۔ ان دنوں وہ ایشیا کپ کو ہدف بنا کر دن رات تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دن میں تین مرتبہ ٹریننگ کروائی جا رہی ہے۔
ورلڈ ہاکی لیگ میں ناکامی کے بعد کوچنگ سٹاف اور کھلاڑیوں پر بھی خاصا دباﺅ ہے اس معرکے میں ناکامی کی صورت میں ٹیم آئندہ سال عالمی کپ میں شرکت سے محروم ہو جائے گی۔ اس مرتبہ اختر رسول کے ساتھ ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری حنیف خان کے بجائے طاہر زمان نبھا رہے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ ورلڈ ہاکی لیگ میں ناکامی کے بعد صرف کوچ کو ہی کیوں برطرف کیا گیا۔ سابق کوچ خواجہ ذکاءالدین کا کہنا ہے کہ ہاکی میں کوچ کا کردار ہمیشہ بہت اہم رہا ہے۔ ہماری ٹیم گذشتہ آٹھ برس میں کچھ نہیں کر سکی۔ اس دوران ٹیم انتظامیہ میں مختلف افراد نے کام کیا لیکن کچھ خاص فرق نہ پڑا۔ اب اختر رسول یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ان کے لئے یہ اور بھی مشکل ہو گا کیونکہ ان کا وزن خاصا بڑھ چکا ہے۔ گراﺅنڈ میں کھلاڑیوں کے ساتھ ٹریننگ کے دوران متحرک رہنا ضروری ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ دماغی طور پر اپنے کوچ کی کچھ مدد ضرور کرتے ہوں۔
نتائج کے حوالے سے اختر رسول کا مختصر دور ماضی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ تاہم کچھ تنازعات اسے مختلف ضرور بنا دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک کھلاڑی کو ڈسپلن کی خلاف ورزیوں پر کیمپ سے باہر کر دیا تھا اور اب انہوں نے شکیل عباسی کو ڈسپلن کی پابندی نہ کرنے پر کیمپ سے نکال دیا۔ تاہم بعد میں انہیں شکیل عباسی کو واپس بلانا پڑا۔ سلمان اکبر اور وسیم احمد بھی ٹیم میں شامل ہیں۔ سینئر کھلاڑیوں کی واپسی اور فیصلوں میں عجلت سے ماحول کے خراب ہونے کا اندیشہ بہرحال موجود رہتا ہے۔ ہمارے کھلاڑی پہلے ہی ذہنی طور پر اتنے مضبوط نہیں۔ ایسے فیصلوں سے ان کے حوصلے بلند ہی ہوں گے۔ انہوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کرنا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ٹیم انتظامیہ ”قضا“ کے بجائے ”سزا“ کے فارمولے پر عمل کرے اور کھلاڑیوں کو سزائیں ان کی سوچ سمجھ کو مدِنظر رکھ کر دی جائیں۔ اختر رسول ٹیم منیجر ہیں اچھا منیجر وہی ہوتا ہے جو اپنے کھلاڑیوں کو قابو میں بھی رکھے اور پلیئرز سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام بھی لے۔ اختر رسول نے گذشتہ سال وقت نیوز کے پروگرام میں اس سال کے شروع میں ملک بھر میں ٹیلنٹ ہنٹ کیمپ لگانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ہم انہیں وہ وعدہ یاد دلائے دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے لئے دعاگو بھی ہیں کہ وہ بروقت اور درست فیصلے کریں اور اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ بھی....!