ڈی آئی خان جیل پر دہشت گردوں کا حملہ
تحریر : یاسین خان ....
اٹھارہ سو ستاون کی بنی چار احاطوں اور چھبیس بیرکوں پر مشتمل سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان کا شمار ملک کی قدیم ترین جیلوں میں ہوتا ہے، پیر اور منگل کی درمیانی شب جب ڈیرہ اسما عیل خان کے شہری نماز تراویح سے فراغت کے بعد عید کی خریداری کے سلسلے میں بازاروں کا رخ کررہی رہے تھے کہ ڈیرہ اسما عیل خان شہر کی فضا اچانک گولیوں اور دھماکوں سے گونج اٹھی ۔رات تقریبا ساڑھے گیارہ بجے سے تقریبا ڈھائی بجے تک مسلسل تین گھنٹے شہر دھماکوں اور گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے گونجتا رہا ، اور جب علی الصبح حالات سے آگہی ہو ئی تو پتا چلا کہ درجنوں مسلح افراد نے حملہ کرکے چھ پولیس اہلکاروں سمیت چودہ افراد کو جاں بحق ، چودہ پولیس اہلکاروں سمیت بچیس افراد کو زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ خطرناک مقدمات میں ملوث اپنے ساتھیوں سمیت درجنوں قیدیوں جن میں چار خواتین بھی شامل ہیں کو نہ صرف رہا کرالیا بلکہ تقریبا تیس خطرناک ترین قیدی جن کا تعلق تحریک طالبان پاکستان لشکر جھنگوی، پاڑہ چنار، باجوڑ، پشاور شدت پسند گروہوں سے تھاکو اپنے ساتھ فرار کرانے میں بھی کا میاب ہوگئے، فرار ہونے والے سنگین نو عیت کے قیدیوں میں ڈیرہ اسما عیل خان میں نویں اور دسویں محرم کے ماتمی جلوسوں میں ہونے والے بم دھماکوں کے مرکزی کردار ولید اکبر، تحریک طالبان سے تعلق رکھنے والے عبدالحکیم، حاجی الیاس، معمور خان، جلال خان، رضوان اور انکے درجن بھر دیگر انتہائی خطرناک قیدی شامل ہیں ، پیر اور منگل کی درمیانی رات تقریبا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب مبینہ طور پر تحریک طالبان سے تعلق رکھنے والے درجنوں شدت پسندوں نے جو جدید ترین خود کار ہتھیاروں، راکٹ لانچر، دستی بموں سے لیس تھے اور مبینہ طور پر چودہ سے اٹھارہ گاڑیوں میں سوار ہوکر ڈیرہ شہر میں داخل ہوئے تھے نے سنٹرل جیل سے ملحقہ نجی ہسپتال کے قریب واقع پولیس کی اکلوتی چیک پوسٹ پر حملہ کرکے اور قریب بجلی کی ٹرانسمشن لائن کو اڑا کر اپنی کارروائی کا آغاز کیا، حملہ آور ز نے جیل میں حفاظتی انتظامات کے لیئے موجودایک بکتر بند گاڑی بھی اپنے قبضہ میں کرلی اور اس کے ڈرائیور کو بے دردی سے شہید کردیاِ انہوں نے انتہائی منصوبہ بندی سے مختلف اطراف سے جیل پر ہلہ بول دیا اور دستی بموں، راکٹ لانچروں اور جدید ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے جیل میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے ، انہوں نے جیل کی ابتدائی دیوار کو متعدد مقامات سے دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا اور دروازوں پر دیسی ساختہ بم نصب کرکے تالوں کو دھماکہ خیز مواد یا پھر کلاشنکوف کی فائرنگ سے توڑتے ہوئے اپنے ساتھیوں اور بعد ازاں عام قیدیوں کو جیل سے باہر نکالنا شروع کردیا،ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے جیسے ہی مین گیٹ کو عبور کے نعرہ تکبیر بلند کیا، جیل کی قصوری چکی میں بند ان کے ساتھیوں نے بھی جوابا تکبیر کی صداءلگائی، قصوری چکی میں کالعدم تنظیموں کے انتہائی اہم ملزمان بند تھے، جنہیں سب سے پہلے نکالا گیا اور پھر انہی کی نشاندہی پر جیل میں قید مخالف فرقہ کے چار قیدیوں کو بھی جیل میں ہی قتل کردیا جن میں اختر عباس جو سابق ناظم افتخار سلیم کے قتل میں سزاءیا فتہ تھا ، فرقہ وارانہ قتل مقابلہ کے دوسرے سزاءیافتہ مجرم اسلم مہیڑ اور فرقہ واریت کے الزامات میں ملتان سے تعلق رکھنے والے دو قیدیوں ساجد‘جمعہ ملنگ شامل ہیں۔ رات کی تاریکی میں جیل سے رہائی کے بعد شہر کی گلیوں میں پناہ کی تلاش میں مارے مارے گھوم رہے تھے ان قیدیوںسے ملاقات کرنے والے عینی شاہدین نے بتایا کہ مذکورہ قیدیوں نے ہمیں بتایا کہ حملہ آروں نے جیل کی دیوار ابتدائی دیوار کو توڑ کر قیدیوں کو باہر نکلنے کا کہا اور کہا کہ ہم طالبان ہیں آپ لوگ جیل سے باہر جائیں اسی دوران حملہ آورز میگا فون کے زریعے بعض قیدیوں کے نام لیکر انہیں عام قیدیوں سے الگ کرکے اپنے ساتھ لائی گاڑیوں میں بٹھاتے رہے اور باقی قیدیوں کو ڈیرہ اسما عیل خان شہر کے اندر سے داخل ہوکر فرار ہونے کی ہدایات جاری کرتے رہے،جیل زرائع کے مطابق سنٹرل جیل ڈیرہ میں معمول کے قیدیوں کے ساتھ ساتھ کالعدم تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، ہنگو اور باجوڑ میں موجود شدت پسند تنظیموں کے انتہائی اہم قیدی رکھے گئے تھے، جیل پر حملہ ہوتے ہی جیل کے اندر موجود سیکورٹی اہلکاروں نے حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کی مگر جدید ہتھیاروں سے لیس حملہ آوروں کا وہ مقابلہ نہ کرسکے،جیل کا عملہ تقریبا 45منٹ تک حملہ آوروں کی پیش قدمی روکے رہا اس دوران جیل اہلکار مقامی پولیس سے اضافی اسلحہ مانگتے رہے جو بروقت نہیں پہنچایا گیا حملہ آور مواصلات کے جدید نظام سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ میں تھے اور ٹولیوں کی صورت میں کارروائی کررہے تھے، شہر کے وسط اور گنجان آبادی میں موجود جیل کے محل وقوع اور رات کی تاریکی کا حملہ آروں نے خوب فائدہ اٹھا یا اور تقریبا تین گھنٹے تک سیکورٹی فورسز کو پیش قدمی سے روکے رکھا،حملہ آوروں نے دستی بموں اور راکٹ کا بے دریغ استعمال کیا، پولیس کی ناکامی اور ایکشن نہ لیئے جانے کی اطلا ع پر برگیڈئیر منصور عزیز نے اپنی نگرانی میں خصوصی آپریشن کی ہدایات جاری کردیں، تاہم اندھیرے اور جیل کے قریب شہری آبادی کو کسی بھی ممکنہ خطرہ سے بچانے کے لیئے سیکورٹی فورسز نے پیش قدمی میں نہایت احتیاط سے کام لیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق علی الصبح تقریبا تین بجے سیکورٹی فورسز کے دستے جیل میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ جیل زرائع کے مطابق جیل میں تقریبا483 قیدی موجود تھے جن میں سے 253قیدی فرار ہوگئے ، چار قیدیوں کو قتل کردیا گیا اور 226 قیدی جیل میں موجود ہیں،جن میں سے چار خواتین اور اٹھائیس دیگر قیدی واپس جیل پہنچ گئے ہیں یہ بھی واضح رہے کہ خفیہ اداروں نے سنٹرل جیل ڈیرہ پر ممکنہ حملہ کی دوروز پہلے ہی وزارت داخلہ کو رپورٹ بھجوائی تھی، جن راستوں سے دہشت گرد ڈیرہ اسما عیل خان شہر کے اندر داخل ہوئے ہیں ان راستوں پر قائم پولیس کی چیک پوسٹوں پرتعینات اہلکار اور موبائل پولیس کی گاڑیاں کہاں تھیں سنٹرل جیل ڈیرہ پر حملہ کے بعد ضلعی انتظا میہ کی جانب سے کرفیو نافذکردیا گیا جس پر شہریوں نے خوب احتجاج کیا ڈیرہ اسما عیل خان میں کرفیو کے نفاذ سے شہریوں کو سخت تکالیف کا سامنا رہا، رمضان المبارک میں کرفیو کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے صوبائی وزیر مال سردار علی امین خان گنڈہ پور نے سنٹرل جیل کا دورہ کیا اور وہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سنٹرل جیل ڈیرہ کا واقعہ قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی کے لیئے سوالیہ نشان ہے، صوبائی حکومت اس واقعہ کی نہ صرف شفاف انکوائری کرائے گی بلکہ اس کے زمہ داروں کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نشان عبرت بنا یا جائے گا صوبائی حکومت نے ڈےرہ اسماعےل خان سنٹرل جےل پردہشتگردوںکے حملے میںفرائض میں سنگین غفلت اور لاپرواہی برتنے پرڈی پی اوڈےرہ سہےل خالدکواوایس ڈی بنا دیا گیا