سازشیوں کی چالیں
سازشیوں کی چالیں
میں جنوری 1992ءمیں امریکہ میں تھا امریکی محکمہ خارجہ کے پروگرام انٹرنیشنل وزیٹرز پروگرام (آئی وی پی) کے تحت مجھے بھی پاکستان سے مدعو کیا گیا تھا۔ پروگرام میں تائیوان ٹائمز کا اس وقت کا ایڈیٹر اور ہنگری کی ایک خاتون صحافی بھی اس پروگرام میں شریک تھی۔ واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانہ میں اس وقت کے پریس قونصلر محمد پرویز سے میں نے رابطہ کر کے پاکستان کی سفیر عابدہ حسین سے انٹرویو کی درخواست کی۔ عابدہ حسین نے انٹرویو کے لئے وقت دے دیا۔ اس انٹرویوکے لئے مجھے دو تین مرتبہ سفارت خانے جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ ہمارے سفات خانہ میں صرف چند سفارت کار اور ان کا محدود سا عملہ کام کر رہا تھا میں نے سفیر صاحبہ سے پوچھا ہمارے سفارت خانہ میں بہت کم لوگ ہیں واشنگٹن تو اہم دارالحکومت ہے یہاں عملہ زیادہ نہیں ہونا چاہئے؟ تو بیگم عابدہ حسین نے بتایاکہ پاکستانی سفارت خانہ میں نوے سے زیادہ افراد کام کر رہے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کسی نہ کسی بڑی شخصیت کے سفارشی ہیں۔ یہ لوگ سفارت خانہ میں صرف حاضری لگانے آتے ہیں اس کے بعد یہ اپنے نجی کاموں کے لئے چلے جاتے ہیں اور دھڑا دھڑ ڈالر کما رہے ہیں جب میں نے ان افراد کے خلاف ایکشن لینے کی کوشش کی تو پاکستان سے بڑی بڑی شخصیات کے سفارشی فون آنا شروع ہو گئے اور میں پاکستانی سفارتخانہ کے حرام خور عملے کی تطہیر نہ کر سکی۔ کئی دوسرے سفارت خانوں میں ابھی تک یہی صورت حال ہے۔
سول ایوی ایشن کے لئے وزیراعظم کے مشیر شجاعت عظیم کو میں نہیں جانتا۔ میں نے ان کی تصویر دیکھی ہے یا پھر ان کے بارے میں میڈیا میں شائع اور نشر ہونے والی رپورٹیں دیکھی ہیں ۔ ان پر الزام لگایا گیاہے کہ ان کی دوہری شہریت ہے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جا پہنچا ہے جس کے بعد سید شجاعت عظیم نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ واقفان حال کاکہناہے کہ شجاعت عظیم سے دراصل ان عناصر نے مل کر جان چھڑائی جو سول ایوی ایشن اور پی آئی اے میں ان کی طرف سے شروع کی گئی اصلاحات کی زدمیں آئے تھے۔ ان واقفان حاال کا دعویٰ ہے کہ شجاعت عظیم نے پی آئی اے کے امریکہ اور یورپ میں وہ دفاتر بندکرنے کی ہدایت کی تھی جہاں پی آئی اے کی فلائٹس نہیں جاتیں۔
اس وقت شکاگو‘ سڈنی‘ گلاسگو‘ سعودی عرب کے بعض شہروں میں پی آئی اے کی فلائٹس بند ہو چکی ہیں لیکن یہاں دفاتر موجود ہیں جہاں کسی نہ کسی بڑی بااثر شخصیت کے عزیز یا چہیتے موجیں کر رہے ہیں۔ پی آئی اے کو بھاری نقصان دینے والے ان دفاتر کے بند ہونے سے کسی نہ کسی کے چہیتے نے متاثر ہونا ہی تھا۔ وزیراعظم کے مستعفی ہونے والے مشیر نے یہ ہدایت بھی کی تھی کہ ایمسٹرڈیم فرینکفرٹ فلائٹ جو پی آئی اے کو 64 لاکھ روپیہ فی فلائٹ نقصان دے رہی ہے اسے بند کیا جائے۔ اس فلائٹ کے بند ہونے سے جن کو نقصان ہونا تھا وہ ہاتھ پرہاتھ رکھ کرکیسے بیٹھ سکتے تھے؟
برطانیہ میں مسافروں اور سامان کی ہینڈلنگ کا ٹھیکہ ایک فرم کے پاس ہے جو یہ فرائض انجام دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود درجنوں اکا¶نٹس آفیسر وہاں کام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر نے اس بات کا بھی نوٹس لیا تھا کہ جو غیرملکی فلائٹس پاکستان کی ائرسپیس استعمال کرتی ہیں ان سے جو فیس وصول کی جاتی ہے اس کا حساب کتاب کرنے والی خود کارمشین کو بند کر دیا گیا تاکہ غیر ملکی فلائٹس سے وصول ہونے والی فیس کا ریکارڈ نہ ہو اور فیس کا پیسہ ہضم کیا جائے۔ پی آئی اے کے بورڈ میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا جنہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ کوئی مفت ٹکٹ لیں گے اور نہ ہی بیرون ملک پی آئی اے کے خرچ پر سفر کریں گے یا ٹھہریں گے۔ نیویارک میں پی آئی اے کا ہوٹل روز ویلٹ اور پیرس میں پی آئی اے کا گیسٹ ہا¶س مفت خوروں اور ان کے خاندانوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ اگر پی آئی اے کا ریکارڈ دیکھا جائے تو وزارت دفاع سول ایوی ایشن اور پی آئی اے سے وابستہ افراد مفت ٹکٹوں کی مد میں پی آئی اے کو اربوں روپے کا نقصان دے چکے ہیں۔ مفت خوری کے اس چکر میں پی آئی اے سمیت دوسرے سرکاری ادارے تباہ کر دئیے ہیں۔ ان بے قاعدگیوں کے خاتمے سے جن افراد کے مفادات پر زد پڑ رہی تھی۔ انہوں نے وزیراعظم کے مشیر کو جوابی کارروائی میں بے بس کر دیا اور وہ چلتے بنے۔
وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کو معلوم ہی ہو گا کہ وہ جس سرکاری محکمے سے بددیانت لوگوں کو فارغ کرنے کی کوشش کریں گے وہاں سے مزاحمت ہوگی اور اصلاحات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے ہر طرح کی سازشیں ہوں گی۔ ایسے لوگوں کے سامنے حکومت ہتھیار ڈالتی گئی تو پھر اس کے اصلاحاتی ایجنڈے کا خدا ہی حافظ ہے۔