قومی مسائل سے عہدہ برا ہونے کیلئے میاں نوازشریف کاسب کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں معاملات صحیح ہوں۔ ملک میں جیلوں تک پر حملے ہوتے ہیں‘ ایسے کام ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوتے۔ گزشتہ روز کراچی میں مزار قائد پر حاضری کے بعد میڈیا سے بات چیت اور گڈانی میں کوئلے کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے افتتاح کے وقت تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا وقت نہیں‘ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں جمہوری طریقے سے بیلٹ کے ذریعے تبدیلی آئی ہے‘ ہم ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی سمیت سب کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ سب کو مل کر ملک کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ ہم ملک میں توانائی کے بحران کا ہر صورت حل چاہتے ہیں اس لئے اس شعبے میں ہنگامی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں امن و امان کے قیام کیلئے صوبائی حکومت اپنا کردار ادا کرے۔ وفاق اس معاملہ میں اسکی بھرپور مدد کو تیار ہے۔
یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار کے ساتھ بےشمار ملکی‘ قومی اور عوامی مسائل بھی منتقل ہوئے ہیں جن میں دہشت گردوں کی جانب سے ریاست کے اندر ریاست بنا کر بندوق اور بارود کے زور پر عوام کی زندگیوں سے کھیلنے اور ملک کی سلامتی کو چیلنج کرنے سے متعلق مسائل سرفہرست ہیں۔ اسی طرح بجلی کی جان لیوا لوڈشیڈنگ‘ روزافزوں مہنگائی‘ بے روزگاری اور قومی معیشت کی بدحالی کے مسائل بھی موجودہ حکومت سے ہی اپنے حل کے متقاضی ہیں۔ ان تمام مسائل کا ہمیں مشرف دور سے ہی سامنا ہے جو پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں زیادہ گھمبیر ہوئے اور ملک و قوم کیلئے مسائل میں اضافے کا باعث بننے کی سزا سابق حکمرانوں کو 11 مئی کے انتخابات میں بھگتنا پڑی ہے جبکہ عوام نے اپنے روٹی روزگار‘ غربت‘ مہنگائی‘ بدامنی‘ لاقانونیت اور توانائی کے بحران کے پیدا کردہ مسائل سے نجات کیلئے میاں نواشریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) سے توقعات وابستہ کیں اور اسے بھاری مینڈیٹ سے نوازتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا۔ یقیناً میاں نوازشریف کو بھی ان تمام مسائل کا بخوبی ادراک ہے اس لئے وہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے معاملہ میں فکرمند بھی نظر آتے ہیں جبکہ عوام حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی توانائی کے بحران سے نجات نہ پانے‘ مہنگائی سے دوچار رہنے اور دہشت گردی کے پیداکردہ مسائل کا سابق دور حکومت ہی کی طرح سامنا کرنے کے باعث ابھی سے مایوسی کا شکار ہیں اور انکی مایوسی اب غصے میں تبدیل ہوتی بھی نظر آرہی ہے۔ اس تناظر میں میاں نواشریف کیلئے اپنے اقتدار کی تیسری ٹرم عملاً کانٹوں کی سیج بن چکی ہے تاہم وہ حالات کی کٹھنائیوں سے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے عوام کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کیلئے پرعزم نظر آتے ہیں۔ توانائی کے بحران سے نجات کی خاطر وہ چین کے تعاون سے بجلی کے تھرمل‘ کول‘ سولر اور ایٹمی انرجی کے متعدد منصوبوں پر کام کا آغاز بھی کر چکے ہیں۔ گڈانی کول انرجی کوریڈور کا منصوبہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے جبکہ وزیراعظم ملک میں دستیاب کوئلے کے ذخائر سے 50 ہزار میگاواٹ تک بجلی حاصل کرنے کا عزم رکھتے ہیں البتہ یہ منصوبے آئندہ چار سے پانچ سال تک پایہ تکمیل کو پہنچیں گے جبکہ عوام بالخصوص بجلی کی لوڈشیڈنگ سے فوری نجات چاہتے ہیں‘ اسی طرح دہشت گردی کا عفریت عوام کا امن و سکون چھیننے کے علاوہ ملک کی معیشت کو بھی کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہی وہ چیلنجز ہیں‘ جن سے عہدہ برا¿ ہونے کی قوم نے میاں نوازشریف سے توقعات وابستہ کی ہیں۔ اگر قومی اتفاق رائے سے ان دونوں بنیادی مسائل کا کوئی قابل عمل حل نکل آئے تو اس سے عوام خوشحال اور ملک کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے۔
میاں نوازشریف نے بطور اپوزیشن لیڈر بھی یہ ادراک کرتے ہوئے کہ ملک و قوم کو درپیش سنگین مسائل حل کرنا تنہاءحکومت کے بس کی بات نہیں‘ حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی کوششیں جاری رکھیں‘ جس پر انہیں فرینڈلی اپوزیشن سمیت مختلف طعنوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ اس تناظر میں میاں نوازشریف کو اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے‘ انہیں جمہوریت کیلئے مضر بننے والی سابق حکمرانوں کی غلطیوں کا کفارہ بھی ادا کرنا ہے‘ عوام کے مسائل حل کرکے انکی مایوسیاں بھی دور کرنی ہیں اور دہشت گردی کے پیدا کردہ خطرات سے ملک کی سلامتی کو محفوظ کرنے کے اقدامات بھی اٹھانے ہیں۔ اس سلسلہ میں ان کا یہ تجزیہ درست ہے کہ یہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا وقت نہیں اور ہم سب مل کر چلیں گے تو ملک آگے بڑھے گا۔ قومی مفاہمت کیلئے میاں نوازشریف کی سوچ تو مثبت ہے جسے وہ بلوچستان اور خیبر پی کے میں حکومت سازی کے معاملات میں عملی قالب میں ڈھال بھی چکے ہیں مگر بدقسمتی سے اپوزیشن قومی مفاہمت سے متعلق انکی سوچ کو نہ صرف قبول کرنے کو تیار نہیں‘ بلکہ صدر کے انتخاب کے موقع پر اپوزیشن نے منفی سیاست کا راستہ اختیار کرکے میاں نوازشریف کی مفاہمانہ پالیسیوں کو عملاً مسترد بھی کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں ملکی مسائل کے حل کیلئے قومی مفاہمت کی فضا پیدا کرنا میاں نوازشریف کیلئے ایک مستقل چیلنج بنتا نظر آرہا ہے۔ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کی کوئی قومی پالیسی وضع کرنے کیلئے میاں نوازشریف کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس اپوزیشن کی سردمہری کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے جبکہ توانائی کے بحران کے مستقل حل کیلئے جن ڈیمز کی تعمیر کی ضرورت ہے‘ انہیں بھی قومی اتفاق رائے کا آسیب لگا کر انکی تعمیر عملاً ناممکن بنادی گئی ہے۔ قومی سیاست میں ایسی مفاد پرستانہ سوچ کے مظاہرے صرف ہمارے ملک میں ہی ہو سکتے ہیں‘ جبکہ پڑوسی دشمن ملک بھارت کو ہماری سول اور فوجی قیادتوں میں تال میل کے فقدان کو بھانپ کر ہی ہماری سلامتی کیخلاف سازشیں کرنے کی سہولت مل رہی ہے جبکہ بذات خود بھارت میں کسی آبی یا توانائی کے منصوبے کو سیاست دانوں کے کسی ذاتی مفاد کی بھینٹ کبھی نہیں چڑھنے دیا گیا۔
آج اگر وزیراعظم خود یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں معاملات صحیح ہوں تو اس بگاڑ کو دور کرنے کی ذمہ داری بھی تو انہوں نے ہی اپنی بہتر گورننس کے ذریعے نبھانی ہے۔ اس سلسلہ میں جہاں انہیں عوام کیلئے فوری ریلیف کے متقاضی مسائل کا حل یقینی بنانا ہے‘ وہیں انہیں قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی سے متعلق معاملات پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے اقدامات بھی خود ہی بروئے کار لانے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ سابق سیاسی رنجشوں اور تلخیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے خندہ پیشانی کے ساتھ پیپلزپارٹی اور اسکی حلیف جماعتوں مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے ساتھ بھی سلسلہ¿ جنبانی شروع کریں۔ اگر صدارتی انتخاب کے ایشو پر انکی ایم کیو ایم (متحدہ) کے ساتھ مفاہمت ہو سکتی ہے تو دہشت گردی کے تدارک اور توانائی کے بحران کے کسی عملی حل کی خاطر وہ پیپلزپارٹی‘ (ق) لیگ‘ تحریک انصاف اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کا بھی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر قومی مفاہمت کے اقدامات خلوص نیت سے کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں یہ بارآور نہ ہوں۔ میاں نوازشریف کو جہاں دوسرے چیلنج درپیش ہیں‘ وہیں قومی مفاہمت بھی انہیں اپنے لئے چیلنج بنانی چاہیے۔ اپوزیشن کو بھی گھمبیر قومی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے حکومت کی تعمیری پالیسیوں کا ساتھ دینا چاہیے اور محض تنقید برائے تنقید سے گریز کرنا چاہیے۔ ملک کی سلامتی اور معیشت کی بحالی کی ذمہ داری تو بلاامتیاز تمام قومی سیاسی قائدین پر عائد ہوتی ہے۔