• news

منتخب صدر ممنون حسین انکشافات اور توقعات

رب کائنات نے رحمتہ اللعالمین حضرت محمدﷺ کو پوری انسانیت کےلئے رول ماڈل بنایا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کا ذاتی کردار ہر لحاظ سے اس عظیم رول ماڈل کے مطابق ہونا چاہیئے۔ قائداعظم محمد علی جناح پہلے حکمران تھے جن کیخلاف کوئی مالی اور اخلاقی سکینڈل نہیں تھا ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سیاسی ولی تھے۔ قائداعظم کے بعد جتنے بھی حکمران آئے انکے ذاتی کردار کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اسلامی اور روحانی فلسفہ¿ سیاست کے مطابق کسی ایسے شخص کو ریاست کا سربراہ یا چیف ایگزیکٹو نہیں بننا چاہیئے جس کا ذاتی کردار مالی اور اخلاقی اعتبار سے صاف اور شفاف نہ ہو۔ دروغ برگردن راوی آجکل سوشل میڈیا پر بھارت کی سابق وزیراعظم اندراگاندھی کے بارے میں مستند تحقیق پر مبنی حیران کن انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اندراگاندھی نے نوجوانی میں اسلام قبول کرکے لندن کی مسجد میں گروسری کا کاروبار کرنیوالے خاندان کے بیٹے فیروز خان نامی ایک مسلمان نوجوان سے نکاح کرلیا تھا۔ اندرا نے اپنا نام تبدیل کرکے میمونہ بیگم رکھا۔ نہرو خاندان اس شادی سے خوش نہیں تھا البتہ سیاسی مصلحتوں کے تحت فیروز خان نے اپنا نام فیروز گاندھی رکھ لیا اور بھارتی عوام کو فریب دینے کے لیے اندرا اور فیروز گاندھی کی شادی ہندو رسم و رواج کے مطابق کی گئی۔ فیروز خان نے اپنا نام تو تبدیل کیا مگر مذہب تبدیل نہ کیا۔ کچھ عرصے کے بعد دونوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور انہوں نے علیحدگی اختیار کرلی۔[K.N.Rao:Nehru Dynasty, ISBN10:8186092005] انکشافات تو اور بھی بہت ہیں مگر ہم نے نئے منتخب صدر ممنون حسین کے بارے میں عوامی خدشات اور توقعات کے بارے میں عاجزانہ تجزیہ پیش کرنا ہے۔
جناب ممنون حسین چاروں صوبوں اور وفاق سے 432 ووٹ لے کر پاکستان کے بارہویں صدرمملکت منتخب ہوگئے ہیں۔ انکے مخالف اُمیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے 77 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ممنون حسین صاحب آئین کے مطابق ریاست کے سربراہ، وفاق کے اتحاد کی علامت اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہونگے۔انکے آئینی اختیارات محدود ہیں مگر منصب کا وقار غیر معمولی ہے جسے بروئے کار لاکر پاکستان کی یادگار خدمت کی جاسکتی ہے۔ ممنون حسین گیان سنگھ بلڈنگ اللہ والہ مارکیٹ آرام باغ کراچی کے رہائشی ہیں۔ انکے ایک ہمسائے محمد اسلم کی گواہی سامنے آئی ہے جو بڑی حوصلہ افزاءہے۔ محمد اسلم کہتے ہیں کہ ”ممنون حسین نرم مزاج، سادگی پسند اور بااصول شخصیت ہیں اور ان کا گھرانہ مذہب کے ساتھ جڑا ہوا ہے“۔ اس گواہی کے پیش نظر توقع کی جاسکتی ہے کہ صدر پاکستان کی حیثیت میں ان کا کردار شاندار رہے گا۔ جب کوئی خراب شہرت رکھنے والا شخص کسی ملک کا حکمران بن جاتا ہے تو اس کی شخصیت عوام کے لیے رحمت بننے کی بجائے زحمت بن جاتی ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور سردار فاروق خان لغاری کے درمیان کشیدگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ محترمہ ،فاروق لغاری کو پریزیڈنٹ آف پاکستان کہنے کی بجائے ”مائی پریزیڈنٹ“ کہتی تھیں۔ اُمید ہے میاں نواز شریف صدر کے منصب کے وقار کا خیال رکھیں گے۔خدا کا شکر ہے کہ منتخب صدر کے بارے میں تاحال کوئی مالی اور اخلاقی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ برادرم خالد محمود سلیم سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر سٹیٹ بنک کے ہمراہ 1997ءمیں ممنون حسین صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں انکے خیالات اور شخصیت سے متاثر ہوا تھا۔ خدا کرے کہ انکے بارے میں یہ خوشگوار تاثر قائم رہے اورممنون صاحب اپنے رفقاءاور پاکستان کے عوام کو مایوس نہ کریں۔ ممنون صاحب 1940ءمیں آگرہ میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ انہوں نے معروف درس گاہ آئی بی اے کراچی سے بی بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ کراچی کی معروف بیکری فریسکو کے مالک کی بیٹی سے شادی کی۔ انکے تین بیٹے بنکنگ اور انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ ممنون صاحب بولٹن مارکیٹ میں کپڑے کی دکان بھی چلاتے رہے ہیں۔ وہ سیلف میڈ شخصیت ہیں۔آجکل ٹیکسٹائل بزنس سے وابستہ ہیں۔ کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر منتخب ہوئے۔محنت میں عظمت ہے۔ تعصبات اور ذ ہنی خبط کے مارے لوگ محنت کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ محسن انسانیتﷺ نے ایک لکڑہارے کے کھردرے ہاتھ چوم لیے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے وکالت کو سیاست پر ترجیح دے کر کئی وکلاءکو اعلیٰ منصبوں سے نوازا تھا۔ میاں نواز شریف نے تجارت کو سیاست پر ترجیح دیتے ہوئے ممنون حسین صاحب کو ریاست کے سب سے بڑے منصب پر فائز کردیا ہے۔ یہ پاکستانی برانڈ جمہوریت کے کرشمے ہیں۔ منتخب حکمران بھی اپنے آپ کو بادشاہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور مشاورت کی بجائے اپنی منشا اور مرضی کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
پاکستان کے عوام کا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ نئے منتخب صدر اپنے منصب کو ذاتی اور جماعتی تجارتی مفادات کے لیے استعمال نہ کریں۔ ممنون صاحب نے مسلم لیگ(ن) کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ خوش آئند اقدام ہے اسی طرح انہیں اپنے بزنس سے بھی علیحدگی اختیار کرلینی چاہیئے تاکہ ان کے خاندانی تجارتی مفاد اور ریاستی مفاد کے ٹکراﺅ (Conflict of Interest) کا احتمال باقی نہ رہے۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم نے انتہائی شاندار روایات چھوڑی تھیں۔ عوام کو توقع ہے کہ نئے منتخب صدر ان روایات پر عمل کرتے ہوئے سادگی اختیار کرینگے اور ایوان صدر کے اخراجات کو متوازن بنائینگے۔ اقربا پروری سے گریز کرینگے اور کسی مسئلے یا پالیسی پر مسلم لیگ(ن) اور پاکستان کے قومی مفاد کا ٹکراﺅ پیداہوگا تو ممنون صاحب پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ پاکستان کے عوام بالعموم اور کراچی کے عوام بالخصوص ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کراچی میں امن کے قیام کو اپنی پہلی ترجیح بنائینگے۔ اپنے منصب کا اثرو رسوخ استعمال کرکے کراچی کے پیچیدہ مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل نکالیں گے۔ معیشت کے پہیے کو چلانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے تاکہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں۔ ممنون صاحب چونکہ وفاق کے اتحاد کی علامت ہیں اس لیے وہ اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ وفاق اور صوبے اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کردار ادا کریں اور کسی صوبے کی حق تلفی نہ کی جائے۔ممنون حسین صاحب کسی ماہر قانون دان کو اپنا مشیر مقرر کریں تاکہ حکومتی فیصلوں کو آئین کے مطابق پرکھا جاسکے۔پاکستان کا سیاسی کلچر آئین کی پاسداری اور اخلاقیات سے عاری ہے لہذا جو شخص آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی ادا کرے اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ نو منتخب صدر ممنون حسین کو فضل الٰہی چوہدری اور محمد رفیق تارڑ کے طعنے دئیے جارہے ہیں حالانکہ دونوں شخصیات نے آئین کی پاسداری کی تھی البتہ ایک واقعہ کا عینی شاہد ہوں۔ لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران وزیراعظم بھٹو اور صدر فضل الٰہی غیر ملکی سربراہان کا لاہور ائیر پورٹ پر استقبال کررہے تھے۔ صدر فضل الٰہی وزیراعظم بھٹو کے پیچھے چلنے لگے۔ بھٹو نے ان سے کہا کہ پروٹوکول کے مطابق ان کا مقام وزیراعظم سے پہلے آتا ہے لہذا وہ آگے چلیں۔ صدر پاکستان کو اپنے منصب کے وقار کا خیال رکھنا چاہیئے اور پارٹی لیڈر کو خوش کرنے کے لیے منصب کے وقار کو داﺅ پر نہیں لگانا چاہیئے۔ صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے پارٹی لیڈر کا ملازم نہیں ہوتا۔ خدا کرے نئے صدر پاکستان کے لیے مبارک ثابت ہوں اور وہ ایسی شاندار روایات چھوڑ کر جائیں جن پر قوم ان پر فخر کرے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کے باوجود نومنتخب صدر ممنون حسین کو مبارکباد دے کر سنہری جمہوری اصولوں پر عمل کیا ہے۔ جمہوری روایات پر عمل کرکے ہی جمہوری کلچر کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن