نئے آرمی چیف کی تقرری بھی نواز شریف حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہو گا:تجزیہ نگار
اسلام آباد (ثناءنیوز) آٹھ ستمبر کو موجودہ صدر آصف علی کے عہدے کی مدت ختم ہوجائے گی جس کے بعد نو منتخب صدر ممنون حسین اپنی ذمے داریاں سنبھال لیں گے۔ ان کے بعد موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا نمبر ہے جن کے عہدے کی مدت رواں سال نومبر میں ختم ہو رہی ہے۔گو ابھی اس میں کچھ وقت باقی ہے۔ آزاد خیال مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف حکومت کوجہاں کئی چیلنجز کا سامنا ہے وہیں ماضی کے تلخ تجربات کو دیکھتے ہوئے نئے آرمی چیف کی تقرری بھی ایک بڑا چیلنج ہوسکتا ہے۔ سنہ 1998ءمیں انہوں نے پرویز مشرف کو آرمی کے سربراہ کے طور پر چنا۔پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف پہلے تو کارگل جنگ کی صورت میں غیر ضروری مہم جو ئی کرکے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری امن مذاکرات کو نقصان پہنچایا پھر اکتوبر 1999ءمیں فوجی بغاوت کے ذریعے نواز حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں اٹک کے قلعے میں قید کر دیا۔نواز شریف کے لئے 1993ءمیں بھی آرمی چیف کا انتخاب درست ثابت نہیں ہوا تھا۔ صدر غلام اسحق خان کی جانب سے 1993ءمیں نواز حکومت ختم کر کے انہیں گھر بھیج دیا گیا اور اس ساری صورتحال میں جنرل کاکڑ نے اہم کردار ادا کیا۔ اکتوبر 1999ءمیں ضیا الدین بٹ کو بھی نواز شریف نے آرمی چیف منتخب کیا تھا لیکن پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کی وجہ سے وہ آرمی چیف کا عہدہ نہیں سنبھال سکے تھے۔ نواز شریف کے لئے یہ تیسرا موقع ہوگا جب وہ جنر ل اشفاق پرویز کیانی کی جگہ لینے کے لئے نئے آرمی چیف کا انتخاب کریں گے۔ ماہرین کے مطابق قومی سلامتی کو لاحق خطرات، دہشت گردی کے خلاف جنگ، ملکی سیاسی صورتحال ، افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کی واپسی جیسے چیلنجز کی موجودگی میں نئے آرمی چیف کا سلیکشن آسان نہیں۔ اگر نواز شریف تین سینئر موسٹ جنرلز میں سے کسی ایک کو فوج کا سربراہ بنائیں گے تو انہیں ہارون اسلم، راشد محمو د اور راحیل شریف میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا۔کچھ مبصر اس پہلو پر بھی سوچ رہے ہیں کہ آئندہ آرمی چیف آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیر اسلام ہوں گے۔ نواز شریف یہ فیصلہ کس طرح کریں گے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔