حویلی اور ایوان صدر
ممنون صدر کی وہ حویلی بھی دکھائی گئی ہے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ ممنون حسین کہتے ہیں کہ وہ تاج محل دیکھنے جائیں گے۔ جبکہ انہیں اپنی حویلی دیکھنے کے لئے جانا چاہئے۔ جنرل مشرف بھی اپنی حویلی دیکھنے گئے تھے۔ دیہاتوں میں حویلیاں بہت ہوتی تھیں۔ اب یہاں شیخ رشید کی لال حویلی مشہور ہے۔ یہ کسی بزرگ خاتون کی ملکیت تھی۔ اب یہ سیاسی اڈا ہے۔ بہت مشہور بھی ہے۔ شاید بزرگ خاتون کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے کہ وہ اس حویلی کے لئے شیخ صاحب سے مقابلہ کرتا۔ شیخ ایک عوامی آدمی ہیں اپنے آپ کو اشرافیہ میں سے نہیں سمجھتے حالانکہ وہ آج کل خاصے امیر ہیں۔ کئی بار وزیر شذیر بننے والا آدمی فقیر نہیں ہو سکتا۔ ان دنوں اشرافیہ کے بدمعاشیہ ہونے کی بات بھی ہو جائے۔ کوئی شریف آدمی اس ظالمانہ سوسائٹی میں عزت سے جی نہیں سکتا۔ شریف آدمی کو کچھ نہ کچھ نواز شریف ہونا چاہئے کہ کوئی خواہ مخواہ زیادتی کرکے نہ چلا جائے۔ شیخ رشید نواز شریف کے ان ساتھیوں میں سے ہیں جو اپنی طاقت کے لئے ایسے لوگوں نے رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ شیخ رشید نے مینار پاکستان پر نواز شریف کے جلسے میں بینظیر بھٹو کے لئے نازیبا زبان استعمال کی تھی۔ زبان کے علاوہ اشاروں سے بھی کام لیا تھا۔
شیخ صاحب لال حویلی میں اپنا عوامی دربار لگاتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو دوسرا کوئی سیاستدان نہیں کر سکتا۔ سیاسی زبان میں تو ایسی باتیں نہیں کی جا سکتیں۔ ممنون صدر کی آگرہ والی حویلی سے مجھے شیخ صاحب کی لال حویلی یاد آ گئی۔ نواسہ اقبال یوسف صلاح الدین کی حویلی بھی ہے جو اصل میں ان کے آباﺅ اجداد کا گھر ہے۔ اب سارا گھرانہ گلبرگ منتقل ہو چکا ہے مگر یوسف صاحب ابھی حویلی نہیں چھوڑ رہے یہاں رونقیں بہت ہیں۔ میں نے ایک محفل میں کہا تھا کہ یہ حویلی یوسف کی سہیلی ہے۔ وہ تو خوش ہوئے مگر ان کے کئی دوستوں نے باتیں بنائیں۔
آگرہ میں حویلی والوں کو یقین نہیں آتا کہ یہاں پیدا ہونے والا صدر پاکستان بن گیا۔ یقین تو خود ممنون حسین کو بھی نہیں آتا مگر یہ یاد رکھیں کہ ان کا خاندان بھارت سے پاکستان آیا۔ یہاں انہوں نے کپڑے کا کاروبار کیا اور امیر کبیر ہو گئے پھر صدر پاکستان بن گئے۔ اس سے پہلے گورنر سندھ بن گئے۔ پاکستان نہ ہوتا تو ممنون حسین اپنی حویلی میں ہی ہوتے۔ پاکستان کا قیام ایک نعمت ہے اور یہ ہمارے سیکولر دانشوروں اور بھارت نواز دوست صحافیوں اور سیاستدانوں کو پتہ چلنا چاہئے۔ بھارت کے گاﺅں جاتی عمرہ میں لوہے کا چھوٹا سا کاروبار عزت مآب بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف کا تھا۔ پاکستان میں انہوں نے اپنی محنت سے اپنے فرماں بردار بیٹوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ یہ بڑی عزت کی بات ہے۔
اب ایسے ہی لوگوں کو سیاست کی کامیابیوں میں یاد رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک آدمی نے کہا کہ ممنون حسین وفاق کی علامت ہوں گے مگر وہ اتفاق کی علامت بھی ہیں۔ اتفاق فونڈریز بھی اتفاق کی علامت ہے۔ لوگ صدر زرداری کے بہت قائل ہیں کہ انہوں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں میں انہیں صدارتی کامیابیاں کہتا ہوں مگر آخری جیت نواز شریف کی ہوئی جس نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ سو سنار کی ایک لوہار کی۔
آگرہ میں ممنون صدر کے لئے جشن منایا گیا تو یہ فطری ہے۔ منموہن سنگھ کے لئے بھی چکوال میں خوشی کی گئی تھی۔ سنا ہے کالم نگار اور سیاستدان ایاز امیر نے باقاعدہ دھمال ڈالی تھی؟
نومنتخب صدر نے کہا ہے کہ آگرہ میں تاج محل دیکھنے جاﺅں گا جیسے پہلے انہوں نے کبھی تاج محل دیکھا ہی نہ ہو۔ وہ کئی دفعہ آگرہ گئے ہوں گے مگر صدر کے طور پر پروٹوکول کے ساتھ تاج پہن کر تاج محل دیکھنے کا مزا ہی کچھ اور ہو گا۔ صدر کلنٹن نے تاج محل دیکھا تو کہا کہ دنیا میں دو گروپ ہیں۔ ایک جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے دوسرے جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا۔ امریکہ میں بہت خوبصورت اور شاندار عمارتیں ہیں مگر تاج محل کو دنیا کے عجائبات میں سے سمجھا جاتا ہے۔ وہ معمار اور مزدور کتنے عظیم لوگ تھے جنہوں نے یہ یادگار بلڈنگ بنائی۔ شاہجہان نے اپنی مرحومہ بیوی کے لئے یہ کمال دکھایا تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ بادشاہ ہو کے وہ بیوی کو محبوبہ سمجھتے تھے جس کے محلات میں کئی کنیزیں وغیرہ ہوتی تھیں اور پھر بیوی کے مرنے کے بعد یہ کمال کیا۔ یہ تو بہت بڑا کمال ہے جو شاید تاج محل سے بھی بڑا کمال ہے۔ بیوی سے محبت ہو بھی تو اس کا اظہار بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یہ امریکہ کی مصنوعی سوسائٹی کے لئے ایک پیغام ہے۔ امریکہ کی ایک عورت نے تاج محل دیکھا تو نیم پاگل ہو گئی۔ اس نے اپنے شوہر نامدار سے کہا کہ تم ایسی عمارت بنواﺅ تو میں ابھی مرنے کے لئے تیار ہوں۔ اس نے کہا میں نے تو نقشہ بھی بنوا لیا ہے۔ تم خود دیر کر رہی ہو۔ ایک امریکی سیاح نے کہا کہ ایسی عمارت کا امریکی امداد کے بغیر بن جانا حیرت انگیز ہے۔ اسے بتایا گیا کہ امریکی امداد سے ایسی عمارتیں نہیں بنائی جاتیں امریکی امداد عمارتیں گرانے کے کام آتی ہے۔
ممنون صدر نے مسلم لیگ ن کی پارٹی رکنیت اور پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ مسلم لیگ ن کے صدر نہ ہوئے تو بھی نواز شریف کے ممنون ضرور رہیں گے یہ خوشی کی بات ہے۔ اس میں صدر زرداری کے لئے ایک پیغام بھی ہے مگر وہ ایسے پیغام وصول نہیں کیا کرتے۔ مجھے افسوس بھی ہے کہ کراچی کے ننھے بھائی لاہور کے ننھے منھے بھائی بہت پیارے دوست پرویز رشید کے ساتھ نائن زیرو پر گئے۔ اسحاق ڈار آگے آگے تھے۔ نائن زیرو پر جانے والے ہیرو نہیں ہوتے۔ اسحاق ڈار کے لئے یہ بھی بہت ہے کہ وہ وزیر خزانہ ہے۔ خزانہ خالی ہے مگر وزیر خزانہ موجود ہیں۔ فاروق ستار نے ممنون صدر کو جپھی ڈال لی۔ ایک بار ممنون حسین نے اعلیٰ کپڑے کا ایک سوٹ فاروق ستار کو دیا تھا جس کا شکریہ وہ آج ادا کر رہے تھے۔ پرویز رشید، حیدر عباس رضوی سے لپٹ گئے اور ان کی گردن پر بوسہ دے دیا۔ رضوی صاحب شرما گئے مگر پھر سنبھل گئے۔ انہیں خیال آیا کہ ہم نائن زیرو پر ہیں۔