ایک سسٹم بنائیے حضور! ایک سسٹم
ایک سسٹم بنائیے حضور! ایک سسٹم
ہم سمجھتے تھے کہ کون سنتا ہے فغان درویش۔ ہم تو ایک عرصہ سے اپنا ہفتہ وار کام بس یونہی لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ ’خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو‘۔ پھر اگلے ہفتے کا کالم بھی مرزا اسد اللہ خاں غالب کی سی لہر بحر میں لکھ ڈالتے ہیں....
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں کیا وہ لکھیں گے جواب میں
میرے گذشتہ کالم کا عنوان تھا ’شہباز شریف کا ہیلی کاپٹر کہاں ہے‘۔ پھر تو گویا میاں شہباز شریف ہیلی کاپٹر پر گوجرانوالہ پہنچ گئے۔ لو! ہیلی کاپٹر کے تیزی سے گھومتے ہوئے پروں کا شور سنائی دے رہا ہے۔ میاں شہباز شریف پہنچ ہی جاتے ہیں جہاں کہیں سے کسی بیچارے کی آواز ان کے کان آن پڑے۔ میں بھی حکمران جماعت کے کسی ممبر اسمبلی کی طرح اپنے موبائل فون کی بیل بند رکھتا ہوں۔ پاس کھڑے بندے کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ میں لوگوں کے فون نہیں سن رہا۔ میرا سیل دفعتاً مضطراب سا ہوا۔ میں نے اسے آن کیا۔ یہ وزیراعلیٰ ہاﺅس سے کوئی گوندل صاحب تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ وہی گوندل صاحب ہیں جن سے شاعر لاہور شعیب بن عزیز کی افطاری میں ملاقات ہوئی تھی۔ شعیب بن عزیز کے ہاں دعوت افطار میں ایک سوٹڈ بوٹڈ صاحب میاں شہباز شریف کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھنے لگے۔ قصیدہ تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ وزیراعلیٰ ہاﺅس سے بولنے والے گوندل صاحب بتانے لگے کہ وہ گوندل صاحب وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر ہیں اور سیاستدان ہیں۔ ہم سرکاری ملازم ہیں۔ پھر انہوں نے مجھے سمجھانے کی خاطر بتایا کہ میں ڈی سی او سیالکوٹ بھی رہا ہوں۔ اب ہم نے فون پر ہرممکن، مودب اور باتکلف ہونے کی کوشش کی۔ ہم پٹواری کو تحصیلدار سے بڑا افسر جانتے اور گردانتے ہیں کہ ”اصل اور وڈا“ افسر وہی ہوتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے میرا کالم پڑھ لیا ہے۔ پھر وہ یہ بتانا بھی نہ بھولے کہ عوامی مطالبے اور مسئلے مسائل والا کوئی کالم ان کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔ مزید یہ کہ میرے کالم میں مذکورہ مغویہ کو بازیاب کروانے کی پوری کوشش کی جائیگی۔ ویسے تو میاں شہباز شریف کے ساتھ کام کرتے ہوئے کسی افسر کے سارے افسری کس بل نکل جاتے ہیں۔ لیکن مجھے یاد آ رہا تھا کہ ایک مرتبہ سیالکوٹ سے کالم نگار آصف بھلی اپنے اسی سابق ڈی سی او زاہد گوندل کی شائستہ طبیعت اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا ذکر کر رہے تھے۔ اب کیا یہ لکھنا بھی ضروری ٹھہرا ہے کہ وہ بمشکل ہی کبھی کبھار کسی کی تعریف کر پاتے ہیں۔ ایک واقعہ یاد آ گیا۔ اردو کے شاعر احمد فراز ایک مرتبہ اسلام آباد میں اپنے ایک دوست سے ملنے چلے گئے۔ وہ صاحب اپنے لان میں کتے سے کھیل رہے تھے۔ مشتاق یوسفی نے سچ لکھا ہے کہ بیشک انسان کتے کا بہترین رفیق ہے۔ احمد فراز کے آ جانے پر اب وہ صاحب انہیں وقت دینا چاہتے تھے۔ وہ کتے کو دور چلے جانے کا کہنے لگے لیکن ان کا لاڈلا تھا کہ ان کی بات سننے سے یکسر انکاری۔ یہ صورتحال دیکھ کر احمد فراز بولے ”بھئی اپنے کان میں ٹھونسا ہوا آلہ سماعت کتے کے کان میں لگائیں کہ یہ آپ کی آواز سن سکے“۔ ادھر حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں سبھی کو آلہ سماعت کی ضرورت ہے۔ شاید میاں شہباز شریف کو نہیں کہ وہ ہر دم چوکس و ہوشیار دکھائی پتے ہیں۔ مشہور شاعر فہمیدہ ریاض نے اپنی تازہ کتاب ”ہم لوگ“ میں پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کا قصہ کہانی لکھا ہے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ 1947ءمیں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم لوگوں نے کیا کیا؟ پاکستان کی حد تک صحیح جواب یہی ہے کہ ہم نے آزادی کے بعد سول سروس اور ریلوے سمیت انگریزوں کے قائم کردہ سبھی ادارے تباہ کر ڈالے۔ ہم نے حکمرانی کا ایک اچھا خاصا سسٹم تباہ کر لیا۔ انگریز بے خبر حکمران نہیں تھا۔ وہ کان رکھتا تھا اور ہر وقت ہر آواز اس تک پہنچتی تھی۔ اب حکمران بھی بہرے ہیں اور انہوں نے اپنے کانوں میں روئی بھی ٹھونس رکھی ہے۔ لیکن اب انہیں آواز خلق سننی پڑے گی۔ عوام جاگ گئے ہیں۔ آج کی تازہ خبر یہی ہے۔ گوجرانوالہ کے شاعر شہزاد نیئر کے لفظوں میں....
فلک سے رفتگاں نے جھک کے دیکھا
بساط خاک سے اٹھنا ہمارا
آج کے حالات میں آپ اسے کوئی لطیفہ نہ سمجھیں۔ یہ امر واقعہ ہے ایک بچہ بک سٹال پر پہنچتا ہے۔ وہ تربیت اطفال کے بارے میں کسی کتاب کا پوچھتا ہے۔ دکاندار اسے اس مضمون پر ایک کتاب دیتے ہوئے پوچھتا ہے کہ ”یہ کتاب آپ کے ابو نے منگوائی ہے یا ماما نے“۔ اب جھٹ پٹ دیا ہوا بچے کا جواب سنیں۔ ”نہیں نہیں! میں خود ہی دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا میری تربیت درست ہو رہی ہے؟“ شیخوپورہ رسول نگر محلہ سے اثم ثمین نامی پانچویں کلاس کی بچی نے ایک اخباری مراسلہ میں اپنی نصابی کتاب میں غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ بچی نے لکھا ہے کہ انگلش میڈیم نصاب کی جماعت پنجم کیلئے ریاضی کی کتاب کے صفحہ نمبر 9 پر مشق نمبر 1.5 کے سوالات کے صفحہ نمبر 163 پر دئیے گئے تمام جوابات غلط ہیں۔ پیاری ذہین بچی نے کتاب کے آخری ٹائٹل پر لکھی ہوئی انگریزی عبارت بھی اپنے اخباری مراسلے میں نقل کی ہے۔ اس نے اس عبارت میں بھی چار غلطیاں ڈھونڈ نکالی ہیں۔ یہ پانچویں جماعت کی طالبہ ہے۔ اس سے آگے بہت سی کلاسیں آتی ہیں۔ پھر وہ ذہین فطین طلباءو طالبات سے بھری پڑی ہیں۔ یہ ساری خلق خدا آنکھیں ملتی ہوئی خواب غفلت سے جاگی حکمرانوں کو گھور رہی ہے۔ اب وہ اپنے پسندیدہ سیاسی لیڈروں کو پرستش کے سنگھاسن کی بجائے پرسش کے کٹہرے میں دیکھنے کی آرزومند ہے۔ اس مرتبہ الیکشن میں بہت سے جیالوں نے بھی بھٹوز کی قبروں پر صرف پھول چڑھانے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ کالم کو ختم کرتے ہیں۔ پانچ ماہ سے گھر سے غائب پندرہ سالہ بچی دو دن میں بھرے پڑے لاہور سے ڈھونڈ نکالی گئی۔ بہت اچھا ہوا۔ کیا اچھا ہو کہ ہم لگے ہاتھوں ایک سسٹم بھی ڈھونڈ لیں۔ پھر ہر چھوٹے موٹے مسئلے پر ہمیں وزیراعلیٰ پنجاب ی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا۔ اب ہر ایک سائل کو، ہر ایک مسئلہ میں میاں شہباز شریف کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ ہاں اور کیا علاج تجویز کیا ہوا ہے چار ماہ تک پرچہ درج نہ کرنے والے تھانیدار کا؟ حضور! سسٹم اسی طرح بنتے ہیں۔ یہ پوچھ گچھ، جانچ پڑتال بہت ضروری ہے جناب۔ ہم بیچارے کالم کار صرف توجہ ہی تو دلا سکتے ہیں۔
پس تحریر: گوجرانوالہ میں سینکڑوں گیس، بجلی چور پکڑے گئے۔ بہت سے محکمانہ لیبارٹریز کے کارکن بے گناہ ٹھہرے۔ حیرت ہے کہ بجلی اور گیس کے محکمہ کا کوئی ایک ادنیٰ ملازم بھی ان چوریوں میں ملوث نہیں پایا گیا۔ اللہ اللہ! چوروں کے جھرمٹ میں، اتنے پاکیزہ لوگ۔ ہم ان محکموں کے مقامی سربراہوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور 14 اگست کو ان کیلئے کسی اعلیٰ سول صدارتی ایوارڈ کی سفارش کرتے ہیں۔