طوفانی بارش کے بعد انتظامی بریک ڈاﺅن ....کراچی میں کشتیاں چلنے لگیں
شہزاد چغتائی
میگا سٹی کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ساڑھے تین ہزار کلو میٹر پر پھیلے ہوئے اس خوبصورت شہر میں ابررحمت کی کچھ بوندیں بھی شہریوں کےلئے باعث زحمت بن جاتی ہیں۔ ہفتہ کی صبح جب کالی گھٹائیں گھر کرآئیں تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے شہری زندگی درہم برہم ہوجائے گی اور ناقص انتظامات کے باعث شہر کا انفرا اسٹرکچر اور خدمات کی فراہمی کا نظام تباہ ہوجائے گا۔ بارش کا آغاز صبح ہوا اور شام تک پورا شہر تالاب میں تبدیل ہوگیا۔ لیاری ندی سمیت تمام ندی نالوں میں طغیانی آگئی جس کے بعد گھروں میں پانی داخل ہونے کے بعد افراتفری پھیل گئی۔ لوگوں کو محفوظ جگہ منتقل ہونے کی وارننگ دی گئی اور سائرن بجائے گئے بعض علاقوں میں گراﺅنڈ فلور کے تمام مکانات ڈوب گئے ان علاقوں میں کشتیاں چلتی رہیں۔ فوج اور نیوی نے متاثرین کو محفوظ مقامات پر شفٹ کیا۔ لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ بن قاسم اور گڈاپ کے علاقے دوسرے روز بھی پانی میں ڈوبے رہے۔ یہ صورتحال ندی نالوں اور برساتی پانی کے راستوں میں لینڈ مافیا کے قابض ہونے کے باعث پیدا ہوئی جنہوں نے نشیبی علاقوں ندی نالوں سمندر کی جانب جانے والی گزرگاہوں میں بلند بالا عمارتیں پلازے اور ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بنالیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بارش کے ساتھ کراچی میں کشنری نظام اور بلدیاتی نظام دونوں پانی میں بہہ گئے اس روز کراچی میں نہ کوئی انتظامیہ تھی نہ ہی بلدیاتی بیورو کریسی اور ملازمین کا کوئی وجود تھا۔ 16سو سٹی وارڈنز کہیں دکھائی نہیں دیئے۔ کے ایم سی کے 400 ڈمپر لوڈر ٹرک ریسکیو اسکواڈ اسنارکل موبائلیں اور ایمبولینسیں کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔ بارش کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کراچی کی انتظامیہ کہاں ہے اور شہر کا والی وارث کون ہے۔ بارش کی پیش گوئی بہت پہلے کردی گئی تھی اور رات بوندا باندی کا آغاز ہوگیا تھا لیکن جس روز بادل گرجے اور بجلی چمکی اس روز کراچی کے ایڈمنسٹریٹر اسلام آباد میں اور کمشنر کراچی رخصت پر تھے۔ کے ایم سی اور میونسپل کارپوریشنوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ اعلیٰ افسران کی عدم موجودگی کے باعث عملہ بھی سڑکوں پر نہیں آیا۔ امدادی کارروائیاں شروع ہوسکیں اور نہ ریلیف کیمپ قائم ہوئے۔ کے ایم سی کے تمام افسران نے موبائل فون بند کردیئے۔ مرکز شکایت پر بھی کوئی موجود نہیںتھا۔
بارش کے بعد کراچی میں ناقص انتظامات پر کراچی کی قیادت اور صوبائی حکومت کے درمیان ٹھن گئی اور سندھ شہری اور سندھ دیہی کا تنازعہ بھی کھڑا ہوگیا۔ ایم کیو ایم نے سارا ملبہ صوبائی وزیر بلدیات پر ڈال دیا لیکن اس میں شک نہیں کہ سندھ دیہی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزراءسڑکوں پر تھے۔ کراچی کی بیورو کریسی غائب تھی جس کا صوبائی وزیر اویس مظفر نے سخت نوٹس لیا اور ایڈمنسٹریٹر سمیت اعلیٰ افسران کو معطل کردیا۔ صوبائی وزیر نے چار گھنٹوں تک بارش میں مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ شہر کے مختلف علاقوں کے ڈوبنے کا نظارہ کیا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے انسان ‘ جانور‘ گاڑیاں بہتی رہیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن ان کے ساتھ تھے۔ یہ میڈیا کا زمانہ ہے۔ کراچی کے شہریوں نے ٹی وی چینلوں پر یہ مشاہدہ ضرور کیا کہ کون پانی میں بھیگ کر شہر کا دورہ کررہا ہے اور کون غائب ہے۔ اس روز بلدیاتی ملازمین کا کوئی نام و نشان نہ تھا جن کی تنخواہیں ڈیڑھ ارب روپے ماہانہ ہیں۔ موسلا دھار بارش کے بعد جہاں عام لوگ متاثر ہوئے وہاں نومنتخب صدر پاکستان ممنون حسین کا گھر بھی محفوظ نہیں رہا اور ڈیفنس سوسائٹی میں اس بار گھروں میں پانی داخل ہوگیا۔ کراچی میں اس بار تباہی کیرتھر سے آنے والے سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی اور پورا شہر جل تھل ہوگیا۔ گڈاپ‘ ہاکس بے‘ سینڈزپٹ اور بن قاسم میں تھرو نالے کے ٹوٹنے سے دیہات زیر آب آگئے اور تمام سڑکیں ٹوٹ گئیں۔ابتدا میں کراچی منصوبہ بندی کے تحت آباد کیا گیا تھا اور شہر کی پلاننگ کے فرائض کے ڈی اے نے انجام دیئے تھے لیکن جب عروس البلاد بے ہنگم طریقے سے پھیلا ایک جانب کچی آبادیاں بن گئیں تو دوسری جانب بلڈرز نے ہزاروں ہاﺅسنگ سوسائٹیاں پلازے اور تجارتی کمپلیکس تعمیر کرکے ماسٹر پلان کو برباد کردیا۔ کراچی کا شمار ویسے تو ترقی یافتہ اور بین الاقوامی شہروں میں ہوتا ہے لیکن جہاں تک شہری سہولتوں کا تعلق ہے تو وہ مغرب کے کسی دیہات کے مساوی بھی نہیں ہیں۔
بارش کے بعد شہر کے زیر آب آن ے کی ایک بڑی وجہ نالوں کی بندش تھی جو کہ پہلے ہی لبالب بھرے ہوئے تھے۔ اس دوران پہاڑوں سے آنے والے پانی نے تباہی پھیلا دی۔ ملیر ندی‘ لیاری ندی سمیت تمام نالوں میں طغیانی آنے سے آبادیوں میں پانی داخل ہوگیا سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال سرجانی ٹا ﺅن‘ نارتھ کراچی ٹاﺅن کی تھی جہاں گھروں میں پانی داخل ہونے کے بعد شہریوں نے رات جاگ کر گزاری۔ کراچی میں انتظامی بریک ڈاﺅن ہونے کے باعث امدادی کارروائیوں کا فقدان دیکھنے میںآیا۔ کے ایم سی اور کراچی کی انتظامیہ متاثرین کےلئے خوراک فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ مختلف علاقوں میں متاثرین سڑکوں پر بیٹھے رہے لیاری کی درجنوں کچی آبادیوں کے گھروں میں پانی داخل ہونے سے خواتین اور بچوں کو اپنی مدد آپ اصول کے تحت نکالاگیا۔
کراچی میں صورتحال کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاہراہ فیصل کے بلاک ہونے کے بعد پانی کی نکاسی کےلئے پہلی بار فوج کو طلب کرنا پڑا جس نے پہلے ایئرپورٹ کے اطراف علاقوں کو کھولا۔ شاہراہ فیصل کے بند ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ایئرپورٹ کی جانب سے آنے والے نالوں میں طغیانی آگئی اور ریلوے لائن حائل ہونے کے بعد پانی کے آگے جانے کا راستہ مسدود ہوگیا تھا۔ پانی بھرنے سے ناتھا خان گوٹھ اور ڈرگ کالونی کے تمام انڈر پاس بھی بند ہوگئے۔ بارش کے بعد جہاں تمام سڑکوں پر پانی کھڑا ہونے کے بعد ٹریفک جام ہوگیا اور لوگ پھنس گئے وہاں کراچی کے تمام انڈر پاس راستوں میں پانی بھر جانے سے ٹریفک کی آمدورفت بند ہوگئی۔ بارش سے کراچی کی 2ہزار سے زائد کچی آبادیاں اور نشیبی علاقوں میں 8 سے 12 فٹ پانی کھڑا ہوگیا۔ بعض نشیبی علاقوں میں مکانات مکمل طور پر ڈوب گئے۔ پاکستان میں فرنیچر کی سب سے بڑی مارکیٹ منظور کالونی بھی ڈوب گئی جس کا سبب منظور کالونی نالہ کا اوور فلو تھا۔
موسلا دھار بارش کے بعد جہاں خدمات کی فراہمی کے نظام پر دباﺅ بڑھ گیا۔ وہاں انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا سڑکوں‘ پل اور فٹ پاتھ پانی کے ساتھ بہہ گئیں۔ سب سے زیادہ نقصان سرجانی ٹاﺅن‘ نارتھ کراچی اسکیم 33‘ سچل‘ گلستان جوہر‘ سعدی ٹاﺅن‘ امروہہ سوسائٹی‘ بن قاسم‘ گڈاپ میں ہوا۔ بن قاسم اور گڈاپ میں کئی ہزار دیہات اب تک زیر آب ہیں۔ کراچی میں بارشوں کا ایک افسوسناک پہلو کراچی میں تعمیر ہونے والی کئی سو سوسائٹیاں ہیں جن کی ناقص تعمیر کا پول اس وقت کھل گیا جب اسکیم 33 ہاﺅسنگ سوسائٹی‘ سعدی ٹاﺅن‘ گلشن معمار‘ بھٹائی آباد‘ صفورا چورنگی کی کئی سو ہاﺅسنگ سوسائٹیاں شامل ہیں۔ بارش کے بعد ان سوسائٹیوں کے گھروں میں پانی داخل ہوگیا اور مکینوں کو چھت پر پناہ لیناپڑی۔ بارش کے دوران ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کے زیرآب آنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ سوسائٹیاں بلڈرز نے ندی نالوں اور برساتی پانی کے راستوں کے اندر تعمیر کی گئی ہیں اور ان کی منصوبہ بندی ناقص ہے۔
ساڑھے تین ہزار کلو میٹر پر پھیلے ہوئے کراچی میں نالوں کی تعداد 500 کے لگ بھگ ہے جن میں بڑے برساتی نالوں کی تعداد سات ہے۔ سوا دو انچ بارش کے بعد شہر کا جو حال ہوا اس کا بڑا سبب نالوں کی عدم صفائی ہے۔ ہر سال ان نالوں کی صفائی کےلئے اجلاسوں کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے اور ان کی نالوں کی صفائی کی بڑی بڑی خبریں اخباروں کو جاری کی جاتی ہیں۔ لیکن اس بار ڈھونگ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ بارش کے بعد کراچی کے تالاب بن جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ پورے شہر میں ندی نالوں اور برساتی پانی کے راستوں کو الاٹ کردیاگیا اورر ان کی جگہ بڑے بڑے پلازہ‘ ہاﺅسنگ کمپلیکس اور آبادیاں بن گئیں۔ سمندر کی جانب جانے والی نہروں اور نالوں پر بھی عمارتیں بن گئیں۔ شہر کے اندر بھی تمام نالوں پر مارکیٹیں بنادی گئی ہیں جس کے ساتھ نالوں کی صفائی کے امکانات ختم ہوگئے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب بہادر شاہ ظفر مارکیٹ پر اردو بازار نالے کی دکانوں کو توڑ کر پانی کا بہاﺅ بنانے کی کوشش کی گئی تھی تو وہ ناکام ہوگئی ۔ نالوں میں اس وقت پانی گزرنے کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ تمام نالے کچرے سے اٹے پڑے ہیں۔ شہر کا سارا کوڑا نالوں میں پھینکاجاتا ہے۔ کئی سال قبل جب نارتھ کراچی کے ایک ٹاﺅن ناظم نے نالے صاف کرائے تھے تو ان میں فوم کے گدے‘ چارپائیاں اور کرسیاں برآمد ہوئی تھیں۔ عام طور پر لوگ پرانا سامان نالوں میں ڈال دیتے ہیں۔ نالوں کی صفائی میں دوسری مشکلات بھی حائل ہیں۔ اولڈ سٹی میں جب کے ایم سی کا عملہ صفائی کےلئے نالوں میں اترا تو کئی ملازمین کو بڑے سانپوں نے کاٹ لیا تھا اور ان سے لپٹ گئے جس کے بعد نالوں کی صفائی روک دی گئی تھی۔ کے ایم سی کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے افسر کا کہنا ہے کہ کراچی کے نالے اب صاف نہیں ہوسکتے۔ ان نالوں میں کوڑا بھرا ہوا ہے۔ 64سال سے ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اندرون شہر یہ نالے ہزاروں کلو میٹر پر محیط ہیں جن کی حقیقی صفائی کئی سالوں میں ممکن ہوسکتی ہے۔
سابق ناظم مصطفی کمال کے دور میں کراچی کے سات نالوں پر لیاری ایکسپریس وے کی طرز پر ایکسپریس وے تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی بنائی گئی تھی لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ کراچی کے نالوں کی صفائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تجاوزات ہیں۔ لیاری ندی اور ملیر ندی سمیت تمام نالوں پر کئی لاکھ تجاوزات ہیں جن کو مسمار کرنا آسان نہیں۔ کراچی میں بارشوں کے دوران کراچی کی تھوک مارکیٹوں میں بھی پانی بھر گیا اور کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ نارتھ کراچی اور مختلف علاقوں کی انڈر گراﺅنڈ موبائل مارکیٹوں کی دکانوں میں پانی داخل ہونے سے ہزاروں موبائل فون‘ لیپ ٹاپ اور الیکٹرونک کا سامان ناکارہ ہوگیا۔ ہفتہ کو نہ صرف کراچی میں طوفانی بارشیں ہوئیں بلکہ بلوچستان میں بارشوں کا 15سالہ ریکارڈ ٹوٹنے کے بعد اس قدر تباہی ہوئی کہ حب ڈیم کے پشتے ٹوٹنے کے بعد حب کینال سے 100کروڑ گیلن پانی کی سپلائی بندہوگئی۔