ڈی جی خان اور راجن پور میں رود کوہیوں کا سیلاب
محمد اشرف بزدار
ساون کی پہلی طوفانی بارش نے نہ صرف اضلاع ڈیرہ غازیخان و راجن پو ر کو جل تھل بلکہ دونوں اضلاع میں رود کوہیوں کے سیلاب نے ہزاروں افراد کو بے گھراور لاکھوں ایکڑ رقبہ پر نقد آور کپاس کی فصل کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اگر چہ اب بارش کا سلسلہ رک چکا ہے جس کی وجہ سے رود کوہیوں کا پانی بھی تھم چکا ہے لیکن خطرہ ابھی مکمل طور پر ٹلا نہیں کیونکہ محکمہ موسمیات نے مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے جس کے نتیجہ میں کوہ سلیمان سے نکلنے والی رود کوہیوں کا پانی میدانی علاقوں میں آکر تباہی پھیلا سکتا ہے ۔
ہفتہ کے روز صرف ایک دن کی بارش سے ضلع ڈیرہ غازیخان کی رود کوہی کوڑا میں 67ہزار کیوسک ، وہوا میں 55ہزار کیوسک، سنگھڑ میں 56ہزار کیوسک ، وڈور میں 48ہزار کیوسک جبکہ ضلع راجن پور کی رود کوہی کاہا میں 96ہزار کیوسک اور چھاچھڑ میں 50ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا جبکہ رودکوہی چھاچھڑ کا پانی یونین کونسل درخواست جمال خان میں داخل ہونے سے 4سو مکانات متاثر ہوئے رود کوہی وہوا اور کوڑا میں سیلابی پانی سے چشمہ رائٹ بینک کینال کی ڈسٹری 29میں شگاف پڑنے سے پانی کینال میں داخل ہوگیا تاہم سیلابی پانی کا رُخ گانمن والی کی طرف موڑ دیا گیا جس سے انڈس ہائی وے زیر آب آگئی اور دو گھنٹے تک پشاور سے کراچی چلنے والی ہر قسم کی ٹریفک معطل ہوگئی اور میلوں دور تک گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ گئیں رود کوہی وہوا کے سیلابی پانی کو عبور کرتے ہوئے ایک چرواہا حاجی محمد سیلابی ریلہ میں بہہ گیا جبکہ ہزاروں ایکڑ رقبہ پر کاشتہ کپاس کی فصل بری طرح متاثر ہوئی
اضلاع ڈیرہ غازیخان و راجن پور میں رود کوہیوں کے پانی کو قابل استعمال لانے کےلئے گذشتہ نصف صدی سے مختلف منصوبے بنائے جاتے رہے ہیں لیکن عملی طور پر تمام منصوبے الماریوں کی زینت بنے رہے یا کرپشن کی نذر ہوگئے ۔میاں شہباز شریف نے اپنے گذشتہ دور حکومت میں رود کوہی کوڑا، وہوا، اور ڈیڑھ ارب روپے کے منصوبے منظور کر کے فنڈز جاری کر دئےے تھے ۔5سال گذرنے کے باوجود نہ تو منصوبہ مکمل ہو سکا اور نہ ہی اس کی افادیت سامنے آسکی اسی طرح رود کوہی وڈور پر 1990کی دہائی میں جاپانی انجینئر نے اپنی نگرانی میں منصوبہ تیار کیا اور اس پر عملدرآمد پاکستانی انجینئرنے کرنا تھا عوام نہیں جانتی کہ اس منصوبے کا کیا حشر ہوا لیکن انہیں یہ معلوم ہے کہ 1951ءکے بعد 2012ءمیں رود کوہی وڈور کے ہی تیز و تند پانی نے راتوں رات ڈیرہ غازیخان شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اطلاعات کے مطابق ایک مرتبہ پھر رود کوہی وڈور پر ایک منصوبہ زیر تعمیر ہے جس کی افادیت تا حال سامنے نہیں آسکی لیکن یہ منصوبہ ”بعض“کو خوشحال ضرور کر رہا ہے اسی طرح رود کوہی مٹھاون پر بھی کروڑوں روپے خرچ کےے گئے تھے جو پانی کا ایک جھٹکا بھی برداشت نہیں کر سکا تھا ۔ ضلع راجن پور میں صرف ایک دن کی بارش سے رود کوہیوں کے پانی نے زبردست تباہی مچا دی کئی حفاظتی بند اور زیر تعمیر کچی کینال ٹوٹ گئی رود کوہیوں کا سیلابی پانی قائمقام سپیکر پنجاب اسمبلی سردار شیر علی گورچانی کے آبائی قصبہ لعل گڑھ اور میرانپور میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے فام ہاﺅس میں بھی داخل ہوگیا سیلابی پانی لنڈی سیداں ، جھوک مکول ، فتح پور ، بھکر پور ، ہڑند، ٹبی لُنڈان ، حمزہ سلطان ، سون واہ اور چٹول سمیت دیگر درجنوں مواضعات میں بھی پھیل چکا ہے ۔ موضع ڈھانڈلہ میں سانپ ڈسنے اور چھت گرنے سے 3افراد جاں بحق ہوگئے رود کوہیوں سے صرف تحصیل جامپور کے 61مواضعات زیر آب 67ہزار ایکڑ رقبہ پر کاشتہ فصلیں تباہ ہوگئی جبکہ 50ہزار افراد بے گھر اور 11ہزار مکانات متاثر ہوئے ہیں جبکہ مجموعی طور پر ضلع راجن پور میں ایک لاکھ 18ہزار ایکڑ رقبہ 3428مکانات اور 42281 ا فراد متاثر ہوئے ریسکوآپریشن میں 21189افراد کو محوظ مکامات پر منتقل اور سولہ ریلیف کیمپس میں 1890 افراد مقیم ہیں ۔پہاڑی نالوں میں سیلاب کا پانی کا زور اب ٹوٹ چکا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہنگامی طور پر ضلع راجن پور کا دورہ کر کے سیلاب سے متاثرہ افراد کےلئے فوری طور پر 5کروڑ روپے ریلیز کرنے کا اعلان کیا انہوں نے دو صوبائی وزراءملک محمد اقبال چنڑ اور عبدالوحید آرائیں کے علاوہ لائیو سٹاک ، زراعت اور ایریگیشن کے سیکرٹریز کو متاثرین کی بحالی تک راجن پور میں موجود رہنے کی ہدایت کی انہوں نے اعلان کیا کہ رود کوہیوں کے منصوبوں پر ترقیاتی کام کی رفتار موٹر وے کی تعمیر سے بھی زیادہ تیز تر کی جائیگی ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے کام کی رفتار موٹر وے سے بھی تیز کرنے کی ہدایت انتہائی خوش آئند ہے لیکن وزیر اعلی اس امر کا بھی جائزہ لیں کہ ماضی میں رود کوہی کاہا اور چھاچھڑ پر کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود سیلابی پانی میدانی علاقوں میں پھیل کر کیوں تباہی مچاتا ہے اور اس کے پانی پر کنٹرول کرکے اسے قابل استعمال کیوں نہیں بنایا جاسکا جبکہ عملی طور پر یہ ممکن ہے کہ وزیر اعلی ذاتی طور پررود کوہیوں پر کام رفتار کی نگرانی کےلئے اپنا قیمتی نکال سکیں گے ؟