افطار پارٹی اور آموں کا تحفہ
ماہ رمضان میں سب سے بڑی سیاسی پارٹی افطار پارٹی ہوتی ہے۔ آم پارٹی بھی ہوتی ہے مگر اس میں تانگے کی سواریوں جتنے لوگ ہوتے ہیں۔ اس بار بہت کم افطاریوں میں گیا ہوں۔ ایک آدھ آم پارٹی بھی ہوئی۔ تحریک انصاف کے میاں محمود الیکشن میں ہار گئے ہیں مگر دوستوں کے ساتھ مل کر رونق لگانا ان کا شیوہ ہے۔ ایسے موقعوں پر خاص لوگوں کو بلایا جاتا ہے مگر میرے جیسے عام آدمی کو بھی بلایا کہ یہ آم پارٹی مکمل ہو جائے۔ اس بار بھی مجھے کچھ دوستوں نے آم بھیجے مگر ان میں سے کسی کا ذکر نہیں کروں گا کہ ان دوستوں نے انہیں بھی آم بھیجے ہونگے جنہوں نے صرف صدر زرداری کے بھیجے گئے آموں کا ذکر کیا ہے۔ میں صدر زرداری کا ذکر کر رہا ہوں۔ جبکہ انہوں نے مجھے آم نہیں بھیجے۔ اسی شام مجھے ڈاکٹر بابر اعوان اور ارشاد بھٹی نے آم بھجوائے نجانے انہیں کیسے پتہ چل گیا کہ مجھے صدر زرداری نے آم نہیں بھجوائے۔ میں نے یہ آم بھی نہ کھائے۔ گھر آئے مہمانوں نے بتایا کہ میں ان مہربان دوستوں کا ذکر نہیں کر رہا جنہوں نے مجھے آموں کا تحفہ بھیجا کہ کہیں صدر زرداری اور ان کے کالم نگاروں کی توہین نہ ہو جائے۔ ویسے سچے دوستوں کو ذکر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ضرورت سیاست اور صحافت کو کمائی کا ذریعہ بنانے والوں کو ہوتی ہے۔ سنا ہے نوازشریف نے بھی آموں کی پیٹیاں بھجوائی ہیں؟ کھرے اور شگفتہ مزاج بے لوث مخلص بہادر مولوی حافظ حسین احمد نے اس رعایت سے صدر زرداری اور وزیراعظم نوازشریف کو پیٹی بند بھائی کہا ہے۔ یہاں یہ محاورہ کتنا برمحل ہے۔ آم کے آم۔ گٹھلیوں کے دام۔ نوازشریف کے ایک کالم نگار نے بھی صدر زرداری کا شکریہ ادا کیا ہے۔ وہ گٹھلیوں کے دام کھرے کرنا بھی جانتا ہے۔ وہ ایک کام نہ نکلنے پر شریف برادران سے ناراض ہے۔ اس لئے اسے نوازشریف کا سابق کالم نگار کہا جانا چاہئے جیسے سابق گورنر ہوتا ہے۔ اس طرح امید قائم رہتی ہے۔ ہمارے ہاں سابق ہونا بھی ایک عہدہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نوابزادہ نصراللہ خان سے ملاقات ہوئی۔ میری گاڑی میں نوابزادہ صاحب نے آم رکھوا دئیے۔ مجھے پتہ نہ چلا کئی دنوں تک آم ڈگی میں پڑے رہے اور خراب ہو گئے۔ اس کے باوجود میں نے اور گھر والوں نے کھا لئے۔ بہت عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ نوابزادہ صاحب کی مہربانی تھی۔ انہوں نے کبھی نہ کہا کہ یہ آم میں نے تمہاری گاڑی میں رکھوائے تھے۔ افطاری تو باغی جاوید ہاشمی کے اعزاز میں تھی مگر وہاں تین چار سو معززین بھی تھے۔ یہ افطاری سیالکوٹ کے نوجوان لیڈر عمر ڈار کی طرف سے تھی۔ وہ سیالکوٹ کی سماجی سیاسی فلاحی شخصیت امتیازالدین ڈار کے صاحبزادے ہیں۔ مجھے سیالکوٹ سے دوست کالم نگار آصف بھلی نے بھی دعوت دی تھی۔ جاوید ہاشمی نے بھی فون کیا۔ وہ خفا خفا ہیں۔ میں نے نوازشریف کو لیڈر کہنے پر ان کی حمایت کی تھی۔ جب عمران کے کہنے پر یہ الفاظ واپس لئے تو مجھے دکھ ہوا۔ اس دکھ کا اظہار میں نے کالم میں کر دیا۔ برادرم توفیق بٹ نے تاکید کی تو میں چلا گیا۔ جاوید ہاشمی میرے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ جاوید ہاشمی کی بیٹی میری بیٹی بشریٰ بی بی کے شوہر بھی مجھے خاص طور پر ملے۔ یہاں بڑی رونق تھی۔ سیالکوٹ کی ایک ہردلعزیز خاتون بھی تھی چھوٹے بڑے سب اسے آنٹی کہہ رہے تھے۔ عمر ڈار بھی میزبان تھے مگر آنٹی ہی سیالکوٹ کی نمائندگی کر رہی تھی۔ سیکرٹری انفارمیشن مومن علی آغا کی افطاری کے لئے برادرم فیاض نے دعوت دی۔ جس میز پر میں تھا۔ وہاں یاسر پیرزادہ، خاور نعیم ہاشمی، طاہر رضا ہمدانی، رائے نذر حیات، عطاالرحمن، واصف ناگی اور فیاض صاحب تھے خوب گپ شپ رہی۔ ہر طرف ہماری برادری کے لوگ تھے۔ مومن علی آغا سب دوستوں سے ملتے رہے۔ شعیب بن عزیز بھی نمایاں تھے۔ اس سے پہلے مجید منہاس کے گھر محفل میلاد اور افطاری تھی۔ حمد و نعت حفیظ تائب کو عشق رسول کی پھیلتی ہوئی خوشبو میں ہم سب یاد کرتے ہیں۔ حفیظ تائب مجید منہاس کے بڑے بھائی تھے۔ سرور نقشبندی ظفر علی محمد انیس حافظ سہیل نے بڑے جذبے سے نعت خوانی کی۔ صفدر علی محسن نے بہت والہانہ پن سے کمپیئرنگ کی۔ اداکار حبیب صاحب اور پروفیسر شیخ ریاض بھی سٹیج پر تھے۔ برادرم شاہد رشید نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں افطاری کا اہتمام کیا۔ حضرت پیر کبیر علی شاہ نے اور صدر روٹری کلب منظور خان اور برادرم ذوالفقار راحت نے خاص طور پر شرکت کی۔ محمد عرفان چودھری نے کاسمو کلب میں روٹری کلب کی طرف سے افطاری دی۔ وہ معصوم اور اچھے دل والے آدمی ہیں۔ اس افطاری نے ایک تقریب کی شکل اختیار کر لی مگر کسی آدمی نے تقریر نہ کی۔ البتہ صدارت صدر روٹری کلب منظور خان نے کی۔ شجاعت ہاشمی کی موجودگی نے ماحول کو عجیب طرح کی ولولہ انگیزی عطا کر دی۔ لیاقت بلوچ کی افطاری میں وہ سب دوست موجود تھے جنہیں اسلام آباد میں نوازشریف کی افطاری میں نہیں بلایا گیا تھا۔ یہ پہلی افطاری تھی جس میں حاضر ہوا۔ یہاں سادگی تھی آسودگی تھی۔ نہ تکلف نہ پروٹوکول۔ برادرم انور نیازی ہر مہمان کو مہمان خصوصی کی طرح عزت اور محبت دے رہے تھے۔ انور نیازی میرے ساتھ تو ایک حق رکھتے ہیں۔ ایک دوست نے طنزیہ انداز میں کوثر نیازی کو یاد کیا تو میں نے کہا بدقسمت آدمی تھے اگر جماعت اسلامی میں ہوتے تو امیر جماعت اسلامی ہوتے مگر شکر ہے کہ انہوں نے جماعت اسلامی چھوڑ دی۔ میں انور نیازی کے لئے دعا کرتا ہوں میرے لئے مولانا عبدالستار خاں نیازی سردار شخصیت ہیں۔ اس سال ایک عجیب افطاری ہوئی۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ افطاری کس کی طرف سے تھی۔ ہم ایک گفتگو میں شریک تھے اور افطاری کا وقت ہو گیا۔ انوار اور اسرار سے سجی ہوئی شخصیت بابا محمد یحیٰی خان، عائشہ ثنا، حاتم، صالحہ، شبیر، طاہر انصاری اور دوسرے دوستوں نے مل کر افطاری کی اس سے پہلے جو گفتگو ہوئی وہ بہت خوبصورت تھی۔ طاہر انصاری کے دوستوں کو نعت خوانی کے لئے بڑا حوصلہ دیا ہے۔ محفل بہت سج گئی۔ روزے کو عربی میں صوم کہتے ہیں۔ صائم اپنے نام کے معانی جانتا ہے۔ حاکم نے طاہر صاحب کی بہت تعریف کی آخر میں نامور نظریاتی اور بہادر دانشور شاعر جلیل کا ایک نعتیہ شعر
وہ نہیں ہوتا تو عالی خشک پتوں کی طرح ۔۔۔ لے کے پھرتی آندھیوں میں دربدر قسمت ہمیں