عید اب کے بھی دبے پائوں گزر جائیگی
منیب فاروق حبیب اکرم منیزے جہانگیر اور میں پی جے میر کے پاس بیٹھے تھے۔ میر صاحب بار بار عید کا ذکر کر رہے تھے۔ اب تو ہمیں بھول ہی گیا ہے کہ عید کیا ہوتی ہے۔ عید کے ساتھ مہنگائی کا ذکر ضروری ہو گیا ہے۔ منیب فاروق نے بڑی دلچسپ بات کی کہ اب میں نے مہنگائی پر بات کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ایک دفعہ میں روٹین میں مہنگائی کی بات کر رہا تھا۔ میرے ایک دوست نے مجھے بہت بُرا بھلا کہا کہ شرم کرو۔ تم بھی مہنگائی کی بات کرتے ہو تم نے کبھی کسی چیز کی قیمت کم کرانے کے لئے دکاندار سے بحث نہیں کی۔ اب میں مہنگائی پر بات ہی نہیں کرتا۔ میں نے اسے کہا کہ تم اتنے امیر تو نہیں ہو۔ امیر کبیر تو بالکل نہیں ہو۔ پھر تمہارے دوست کو تم پر کیوں شک ہوا۔ وہ بڑی سادگی سے بولا۔ بہرحال میں غریب بھی نہیں ہوں۔ غریب جس اذیت اور ذلت سے زندگی گزارتے ہیں۔ ہم اس کا تصور نہیں کر سکتے۔ بے نظیر انکم سپورٹ والی فرزانہ راجہ نے مجھے بتایا کہ کئی دور افتادہ پسماندہ علاقے ایسے لوگ بھی ہیں جہاں عورتوں نے ایک ہزار کا نوٹ دیکھا ہوا نہ تھا۔ منیب سے میں نے کہا کہ ہم تو فائدے میں ہیں کہ ہمارا شمار نہ غریبوں میں ہے نہ امیروں میں ہے۔ وہ معاشرہ آئیڈیل ہو گا جہاں یہ صورتحال ہو کہ کوئی غریب ہو نہ امیر ہو۔ یہ فطری ہے کہ ہر زمانے میں امیر بھی تھے۔ غریب بھی تھے۔ یہ سلسلہ تو ختم نہیں ہو گا۔ اصل معرکہ تو اس فرق اور تفریق کو دور کرنا ہے جو غریبوں اور امیروں کے درمیان بڑھتی جاتی ہے۔ بس یہ ہو کہ امیر کوامیر ہونے کا افتخار نہ ہو اور غریب کو غریب ہونے کا احساس نہ ہو۔ احساس برتری اور احساس کمتری دونوں ایک جیسے ہیں اور بُرے ہیں ایک زمانہ تھا کہ یہ مسئلہ ایسا نہ تھا۔ ہم اتنے غریب نہ تھے بہرحال ہم غریب تھے مگر غریب نہ تھے۔ آپ کہیں گے یہ کیا بات ہے۔ بات ایسی ہی ہے۔ جو امیر تھے وہ امیر نہ تھے۔ عید پر مجھے امیری غریبی کے چکر نے چکرا دیا ہے ہم لاکھ کہیں کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ اب بھی عید کا انتظار رہتا ہے۔ بچوں کی عید سے ہم خوش ہوتے ہیں تو ہماری بھی عید ہو جاتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں عید متنازعہ کیوں ہو جاتی ہے۔ غریبوں کی عید کچھ اور ہوتی ہے اور امیروں کی عید کچھ اور ہوتی ہے۔ عید کا چاند ہمارے شعر و ادب میں کئی استعاروں میں پھیلتا چلا گیا ہے۔ مجھے میاں محمد بخش بہت پسند ہے۔ وہ شاعر تھے صوفی تھے۔ میری ایک خواہش ہے کہ مولوی کچھ کچھ صوفی ہو جائیں سب کشادہ دل عالی ظرف درگذر کرنے والے ہوں۔ روک ٹوک میں دوسروں کی توہین نہ کرتے ہوں۔ ہر کوئی اب تو ناراض ہے بیزار ہے ناخوش ہے۔ زندگی کو شرمندگی بنا دیا گیا ہے زندگی کو ایک اور زندگی کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ یہ تو میری خواہشیں ہیں۔ خواہشیں کا لفظ اچھا نہیں ہے کہ خواہشیں گندی اور ننگی بھی ہوتی ہیں، میرے بھی ہیں کچھ خواب۔ مگر ہمیں نہ تعبیر ملتی ہے نہ تقدیر ملتی ہے۔ خواب گم ہو گئے ہیں اور تعبیریں خوابوں کو ڈھونڈتی پھرتی ہیں۔ عید بھی اب ایک خواب ہے۔ میاں محمد بخش کا مصرعہ بھی لفظوں میں بھٹک کر رہ گیا ہے۔ اُس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں گےاس بات میں کوئی راز ہے اور راز کا تعلق رات سے ہے۔ رات صرف جاگنے والوں کو اپنا راز دیتی ہے۔
تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر ۔۔۔ زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
کبھی ہم عید کے لئے ساری ساری رات جاگتے تھے اب بھی کبھی کبھی نیند نہیں آتی۔
اُس کو میری نہ مجھے اُس کی خبر جائے گی ۔۔۔ عید اب کے بھی دبے پائوں گزر جائے گی
گفتگو کے دوران منیزے نے ایک عجب بات کی۔ حبیب اکرم دہشت گردی کے لمحوں کو لفظوں میں ڈھال رہا تھا۔ اس نے ٹھیک کہا کہ لہو کا رنگ سرخ ہے مگر بلوچستان سندھ اور خیبر پختونخوا کے دہشت گرد مختلف لوگ ہیں۔ منیزے سے ایک جملہ ہو گیا جیسے شعر ہوتا ہے۔ جیسے کسی کے ہاتھ پر بیٹھا ہوا کبوتر اچانک اڑ جاتا ہے۔ کبوتر صوفی پرندہ ہے۔ مزاروں پر رہتا ہے۔ شاید قبرمیں سوئے ہوئے زندہ آدمی سے بات بھی کر لیتا ہو۔
’’لہو کی فطرت بھی تو ہوتی ہے‘‘۔ منیزے کا یہ جملہ میرے دل و جاں میں کئی کیفیتیں بکھیرتا چلا گیا۔ بندہ جوں جوں فطرت سے دور ہوتا جاتا ہے تو ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ لہو کی فطرت کیا ہے… یہی تو ہمارے سیاستدان معلوم نہیں کر پائے۔ ہر معاملے کو سیاسی طور پر حل نہیںکیا جا سکتا ہے۔ ہم تخلیقی لحاظ سے سوچتے ہی نہیں ایک لیڈر کو سیاسی ہونا چاہئے تخلیقی بھی ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں سیاستدان صرف حکمران بنتے ہیں لیڈر بننا نہیں چاہتے۔ لیڈر حکمران سے بڑا ہوتا ہے۔ سچے حریت پسند لیڈر نیلسن منڈیلا نے کہا۔ ایک حکمران آئندہ الیکشن کے لئے سوچتا ہے۔ ایک لیڈر آئندہ نسل کے لئے سوچتا ہے۔ ہم بے عشق زندگی گزارنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ ہم سیاست کو خدمت کہنے کا جھوٹ بولتے ہیں اور سیاست کو محبت نہیں بناتے۔
یہی المیہ ہے کہ ہم عید کا دن بھی چھٹی کے دن کی طرح گزار دیتے ہیں جبکہ زندہ لوگوں میں چھٹی کا تصور کوئی نہیں ہوتا۔ قربانی بھی اس طرح دی جاتی ہے جیسے انجوائے کیا جا رہا ہو۔ ہمیں انجوائے کرنے کا ہنر بھول گیا ہے۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا ۔۔۔ اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
سارے سبق ہمیں بھول گئے ہیں اور ہم کسی بات سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ مہنگائی نے ہمارے خیالوں کا بھی بھرکس نکال دیا ہے۔ ماہ رمضان میں مہنگائی کا مقابلہ کرتے کرتے ہم عید کی پریشانی میں پھنس گئے ہیں۔ ہم کیسے مسلمان ہیں کیسے انسان ہیں۔ ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ اپنے عزیزوں دوستوں کے ساتھ آبائی گھروں میں جا کے عید مناتے ہیں اور ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ نہ ٹرانسپورٹ ملتی ہے اور جو کچھ جیب میں ہوتا ہے۔ جس سے بچوں کے لئے عیدی لے کے جانا ہوتی ہے وہ کرایوں پر لگ جاتا ہے۔ مہنگائی کے پیسوں سے دکاندار عمرے پر چلے جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح زیادہ ثواب ہوتا ہے؟ قوت خرید سے محروم ایک نڈھال خاتون نے پوچھا کہ تم بڑے ادیب بنتے ہو۔ یہ تو بتائو کہ قیمت کی جمع کیا ہے۔ میں نے بے ساختہ کہا۔ قیامت۔ وہ اچھل پڑی۔ اور اس دن سے میری قائل ہو گئی۔ میں اندر سے ڈرا ہوا تھا کہ اگر اس نے مجھ سے پوچھ لیا کہ قائل ہونے مائل ہونے اور گھائل ہونے میں کیا فرق ہے تو میں کیا جواب دوں گا۔ !!!