شرمناک خان
عمران خان عدلیہ اور سپریم کورٹ کے لئے اچھے خیالات رکھتا تھا اور یہ اس کا ہر کسی کے لئے احسان عظیم ہے۔ کوئی اس کی حمایت کرے مذمت کرے اس پر جان مال عزت نچھاور کرے تو بھی عمران خان کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ میرا شکریہ بھی ادا کرے کہ میں نے اس کا یہ انکسار پیار اور اعتبار قبول کر لیا ہے۔ اس نے دھمکیاں دیں ایک بھی پوری نہیں کی۔ ”میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلاﺅں گا“۔ کسی نے پوچھ لیا کہ کب چلاﺅ گے۔ اب چلاﺅ بھی۔ تو اس نے کہا کہ یہ کیا کم ہے کہ میری سیاسی پارٹی کا نام تحریک انصاف ہے۔ اس میں تحریک موجود ہے۔ اس ملک میں بے شمار بے انصافی ہو رہی ہے۔ عمران کی پارٹی میں بے تحاشا بے انصافی ہو رہی ہے مگر پارٹی کا نام تحریک انصاف ہے۔
انہوں نے عدلیہ کے لئے کئی بار اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اعتماد کا اظہار تو چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی پر بھی کیا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی پر بھی اعتماد کیا۔ اسے کرکٹ کی سرداری نوازشریف نے کون سے صلے میں دی ہے۔ پھر بے اعتمادی کا بھی ہر کسی کے لئے عمران نے گرمجوشی سے کی۔ عمران ذمہ دار آدمی کب بنے گا۔ وہ فیصلہ کُن شخصیت نہیں ہے۔ ایسے آدمی کے لئے پنجابی میں بولتے ہیں۔ گھڑی تولہ گھڑی ماشہ۔ تولے کا تولنے سے کیا تعلق ہے؟
پہلے بات کو تول قریشی
پھر بھی نہ منہ سے بول قریشی
کسی کا دھیان عمران کے ولی عہد شاہ محمود قریشی کی طرف نہیں جانا چاہئے؟ عمران کسی کی بات نہیں مانتا۔ اپنے دل کی بھی نہیں مانتا۔ اُسے الیکشن میں دھاندلی کا خیال دلایا گیا۔ چنانچہ فخرو بھائی بھی رگڑا گیا۔ دھاندلی کچھ نہ کچھ ہوئی ہو گی۔ اس دھاندلی کے لئے بڑے بلند بانگ دعوے عمران نے کئے کہ ہم دھاندلی نہیں ہونے دیں گے۔ اب اس کا رویہ شرمناک ہے کہ اگر وہ کہتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ پہلے تو وہ اپنی ناکامی نااہلی کا اعتراف کرے۔ مگر اعتراف کرنا ہمیں آتا نہیں ہے۔ ہمیں صرف اختلاف کرنا آتا ہے۔ حالانکہ اختلاف کرنے کا حق صرف اُسے ہے جو اعتراف کرنا جانتا ہو۔ عمران خان صرف اپنا اعتراف کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے یہاں لوگ صرف اپنے پارٹی لیڈر کا اعتراف کرتے ہیں دوسروں سے صرف اختلاف کرتے ہیں۔
عمران کو باتیں کوئی بتاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بار مختلف اور بے شمار دھاندلی ہوئی ہے۔ یہ دھاندلی الیکشن کمشن اور عدلیہ نے مل کر کی ہے تو پھر جرات کرے پشاور حکومت کیوں قبول کی نوازشریف حکومت قبول کی خورشید شاہ کی اپوزیشن لیڈری قبول کی۔ چودھری نثار سے جپھی ڈالی اور صدارتی الیکشن ہارنے کے لئے میدان میں آئے؟
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
عمران نے عدلیہ پر تنقید کی۔ واضح لفظوں میں کہا کہ الیکشن میں عدلیہ کا رویہ شرمناک تھا۔ اب عدلیہ نے نوٹس لیا ہے تو عمران حسب معمول کہتے ہیں کہ میں عدلیہ سے معافی نہیں مانگوں گا۔ پھر دلیلیں کیوں دیتے ہو وکیل کیوں کرتے ہو۔ یہ تو اس سے کسی نے ٹھیک کرا لیا کہ اعتزاز کی وکالت کے لئے پیشکش قبول نہیں کی۔ ورنہ اس کا حشر بھی کرپٹ اور نااہل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی والا ہوتا۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کے لئے میرے دل میں عزت ہے۔ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔ اور دلیری سے چیف جسٹس بحالی کے لئے باتیں کیں مگر اُن کا صدارتی امیدوار بننا مجھے پسند نہیں آیا۔ یہ صریحاً مسلم لیگ ن کے ساتھ تعاون تھا۔ ورنہ دوسری صورت میں صدارتی انتخاب نہ ہو سکتا تھا۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے جنرل مشرف کے ساتھ تعاون میں سترھویں ترمیم منظور کروائی مجھے مسلم لیگ ن کے امیدوار کے جیتنے کی خوشی ہے۔ ایسی نکمی اپوزیشن کے مقابلے میں حکومت کا جیتنا اچھا ہے۔ اپوزیشن میں بھی اپنی پوزیشن کا خیال رکھنا عمران کی فطرت ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رویے پر افسوس ہے۔ مسلم لیگ ن کی فرینڈلی اپوزیشن سے زیادہ فرینڈلی اپوزیشن تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی ہو گی۔
اگلے پانچ سال کے لئے باری تحریک انصاف بلکہ عمران خان کی ہو گی۔ باری بچانے کے لئے جو نوازشریف نے کیا وہ عمران خان کرے گا بلکہ اس سے بھی کرایا جائے گا میں نے کہا تھا جو جنرل مشرف نہ کر سکا۔ صدر زرداری نے کیا۔ جو صدر زرداری نہ کر سکا نوازشریف کریں گے اور کر رہے ہیں۔ جو نوازشریف نہ کر سکے عمران خان کرے گا۔ پریکٹس شروع ہو چکی ہے۔ بھارت کے خلاف عمران خان کا بھی کوئی بیان نہیں آیا۔
سابق صدارتی امیدوار وجیہہ الدین نے کہا کہ عمران کو یوسف رضا گیلانی نہیں بننا چاہئے۔ راجہ پرویز اشرف بننا چاہئے۔ راجہ صاحب عدالت سے بچ گئے تھے۔ عمران خان بھی بچ جائے گا۔ راجہ رینٹل کے بعد عمران کے لئے یہ نام سجے گا رینٹل خان۔ وجیہہ الدین احمد کا شکریہ؟
مگر ابھی تو میں نے عمران خان کے لئے شرمناک خان تجویز کیا ہے۔ اس نے خود کہا ہے کہ شرمناک کوئی گالی نہیں ہے تو میں نے عمران کی تعریف کی ہے۔ ایک بار میں نے اس کے لئے معافی خان تجویز کیا تھا وہ ناراض ہو گیا تھا۔ جب اس نے مشرف کو صدر بنانے کی ”غلطی“ کی۔ پھر معافی مانگی تھی۔ اُس نے اپنے پارٹی سیاستدانوں سے الیکشن میں ٹکٹوں کی شرمناک تقسیم پر بھی معافی مانگی ہے۔ اب وہ شرمناک خان کے نام کے لئے ناراض نہیں ہو گا۔ سنجیدہ بلکہ رنجیدہ وکیل لیڈر برادرم حامد خان نے سپریم کورٹ میں کہا کہ عمران نے عدلیہ کو کچھ نہیں کہا جو کچھ کہا ہے۔ ریٹرننگ افسروں کو کہا ہے۔ کہا گیا کہ صدر زرداری کو اقتدار این آر او کی وجہ سے ملا ہے۔ نوازشریف کو آر او کی مہربانی سے ملا ہے۔ اب عمران خان کے لئے آر بھی کاٹ کر اقتدار ملے گا۔ یعنی ”رو“ کر ملے گا۔ تو چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پڑھیں۔ حامد خان نے یہ مشورہ قبول کر لیا ہے وہ عمران کو بھی سبقاً سبقاً آئین پڑھائے گا۔ آئین میں لکھا ہے کہ عدلیہ سپریم کورٹ ہے اور ہائی کورٹ ہے۔
آئین سے یاد آیا۔ کسی نے پوچھا کہ تحریک انصاف کا آئین کیا ہے۔ تو جواب ملا۔ تحریک انصاف کے آئین کا پتہ نہیں ہے البتہ عمران خان کا آئینہ عائلہ ملک ہے۔ اس کی وضاحت میں اگلے کالم میں کروں گا۔ چلیں دوسرا ایس ایم ایس بھی سُن لیں۔ پوچھا گیا کہ جب آدمی گناہوں سے توبہ کرتا ہے مگر اس کے دل میں ابھی کھوٹ ہوتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے۔ جواب آیا کہ وہ عمران خان کی پناہ میں آ کے تحریک انصاف جائن کر لیتا ہے۔ اندازہ فرمائیں۔ یہ صدر زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی نے کہا ہے۔ رحمن ملک کہتا ہے کہ پہلا منہ بولا بھائی میں ہوں۔ ذوالفقار مرزا کہتا ہے کہ میں ہوں۔ صدر زرداری کہتا ہے دونوں ہیں بلکہ تینوں ہیں۔ جس کرپٹ امیدوار کو الیکشن کمیشن یعنی ریٹرننگ افسروں نے 63، 62 کے تحت نااہل کیا۔ اُسے عدلیہ نے اہل کیا ہے۔ یہ بات میں توہین عدالت کے مقدمے کے حوالے سے نہیں کہہ رہا ہوں۔ تو ٹپی صاحب نے کہا کہ عدلیہ نے عمران کو 63، 62 پر نہیں پرکھا۔ ان کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن والوں کو ”آئینی“ اور سیاسی تحفظ حاصل تھا؟
حضرت مولانا صاحب کہتے ہیں کہ عمران کو ہیرو بنایا جا رہا ہے۔ اب تو لگتا ہے زیرو بنایا جا رہا ہے۔ عدالت سے مولانا ثابت کروائیں گے کہ عمران اسرائیل کا ایجنٹ ہے۔ اسرائیل اور امریکہ میں فرق نہیں اب اس میں بھارت کو بھی شامل کر لیں۔ تو بتائیں کہ کون حکمران سیاستدان ایجنٹ نہیں ہے۔ سب سیاستدان حکمرانوں کا آپس میں اختلاف صرف ”قومی“ ہے۔ امریکہ کے ایجنڈے پر سب متفق ہیں۔ زرداری عمران مولانا اور نوازشریف۔ حضرت مولانا نے فیصل رضا عابدی کی چیف جسٹس کے خلاف صدارتی اور ذاتی ہرزہ سرائی کا حوالہ دیا۔ اب عمران خان کو بھی نظرانداز کیا ہوتا۔ مولانا عدالت کی سیاست کو بھی خوب سمجھتے ہیں مگر بات کرنے میں کیا حرج ہے؟ عمران کے جارحانہ رویے کے برعکس عدالت میں حامد خان وکیل کے مدافعانہ رویے کو دیکھا جائے تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ عدالت کی فراست کی ایک اور مثال کہ عمران کا پہلا خط مسترد کر دیا گیا۔ دوسرے خط کے لئے صرف ڈیڑھ گھنٹہ دیا گیا اور تیسرے خط کے لئے پورے 20 دن دئیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خط کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ شاید اسی لئے سابق صدارتی امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ عمران خان گیلانی نہ بنے راجہ بنے۔ اور راج کرے۔ یوں بھی پاکستان میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے میرا خیال ہے کہ وہ معافی مانگے گا اور معافی کی کئی قسمیں ہیں۔ مجھے تو عدلیہ کا ایک فیصلہ بہت پسند آیا تھا۔ جو اُس نے کرپٹ اور نااہل وزیراعظم گیلانی کی مزید نااہلی کے لئے دیا تھا۔ آخر میں عمران کی مذمت صوفی دانشور واصف علی واصف کا یہ قول کہ جس قوم کے لوگ معاف کرنا اور معافی مانگنا نہیں جانتے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے یہ قول سارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے خاص ہے۔