• news

سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ پاکستان پہنچ گئے‘ مسئلہ کشمیر ‘ پاکستان اور بھارت ثالثی پر متفق ہوں تو کردار ادا کرنے کو تیار ہوں : بان کی مون

اسلام آباد (اے پی پی + آئی این پی + ثناءنیوز) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون پاکستانی قیادت سے خطہ کی صورتحال خاص طور پر لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی پاکستان، بھارت کشیدگی‘ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا‘ پاکستان سے پولیو کا خاتمہ‘ خواتین کی تعلیم کے فروغ سمیت دیگر امور پر بات چیت کیلئے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ بان کی مون صدر آصف علی زرداری وزیراعظم نوازشریف سمیت دیگر شخصیات سے ان ایشوز پر اہم ملاقاتیں کرینگے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اسلام آباد میں قیام کے دوران یوم آزادی کی تقریب کے علاوہ انسداد پولیو اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) میں ہونے والی تقریب میں بھی شرکت کرینگے۔ ذرائع کے مطابق لائن آف کنٹرول پر پیدا شدہ کشیدگی کی صورتحال میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا یہ دورہ مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ پاکستانی قیادت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھارتی قیادت کے جارحانہ رویئے اور پاکستان کی طرف سے کشیدگی کے خاتمہ کیلئے کئے گئے اقدامات سے آگاہ کرے گی۔ دریں اثناءپاکستان روانگی سے قبل ایک انٹرویو میں بان کی مون نے جموں کشمیر میں تشدد کے حالیہ واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت پر دیرینہ تنازعہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا اور پیشکش کی کہ اگر ان کی ثالثی پر دونوں اطراف متفق ہوں تو وہ اس ضمن میں کردار ادا کرنے کے لئے دستیاب رہیں۔ توقع ہے دونوں ممالک کی قیادت اعتماد سازی کے لئے اقدامات پر بات چیت جاری رکھے گی، دہشت گردی کے انسداد کے لئے عالمی برادری کو مل کر کام کرنا ہو گا، کوئی ایک ملک تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ میں اس تمام تر تنازعہ میں جانوں کے ضیاع پر افسردہ ہوں تاہم بات چیت کے ذریعے بنیادی تنازعہ کے حل کے لئے دونوں اطراف کی جانب سے مذاکرات میں مشغول ہونے کے حالیہ اقدام سے مجھے خاصا حوصلہ ملا ہے اور جس کی میں پرزور حمایت اور خیرمقدم کرتا ہوں۔ اقوام سکیورٹی کونسل کے ایجنڈہ پر موجود عشروں پرانے تنازعہ کے حل کے لئے پاکستان اور بھارت کے رہنماﺅں کی معاونت کرنے سے متعلق سوال پر بان کی مون نے کہا کہ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے عہدہ کی دستیابی کی پیشکش برقرار ہے۔ دونوں اطراف سمجھتی ہیں کہ یہ مفید ہے اور دونوں اطراف متفق ہوں تو میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لئے تیار ہوں۔ پاکستانی علاقے میں امریکی ڈرون حملوں پر ملک میں تشویش اور غم و غصے کے جذبات اور ان حملوں کے خاتمے کے لئے امریکہ کو قائل کرنے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے کئی مواقع پر مسلح یواے ویز (بغیر پائلٹ مسلح طیارے) سے جانی ضیاع پر تشویش کا اظہار کیا، یو اے ویز کی کارروائیاں بین الاقوامی انسانی ہمدردی قوانین سمیت متعلقہ بین الاقوامی قوانین کے تابع ہیں، ہم توقع رکھتے ہیں کہ یواے ویز استعمال کرنے والے ممالک یا گروہ ان طیاروں (یواے ویز) کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی متعلقہ شقوں کی سختی سے پیروی کریں گے۔ میری تشویش اس مسلح تصادم سے متعلق ہے جب یہ یواے ویز غیر ریاستی عناصر چلاتے ہیں، اس سے زیادہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ حقیقی اور پرزور انداز میں زور دیتا ہے کہ یہ تمام یواے ویز بین الاقوامی انسانی ہمدردی قوانین سمیت بین الاقوامی قوانین کے تحت ریگولیٹ اور کنٹرول کئے جانے چاہئیں۔ نومنتخب جمہوری حکومت کی قیادت کے ساتھ ان مخصوص امور جن پر بات چیت ہونا ہے، کے حوالہ سے سوال پر بان کی مون نے کہا کہ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے یہ ان کا تیسرا دورہ پاکستان ہو گا، پاکستان میں سویلین حکومت سے دوسری سویلین حکومت کو پہلی بار اقتدار منتقل ہوا ہے، یہ اچھا پیغام ہے، کئی اہم امور پر ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، 66 سال قبل اقوام متحدہ میں شمولیت سے لے کر پاکستان بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے، ہم شکرگزار ہیں کہ پاکستان اقوام متحدہ امن فوج کا سب سے بڑا حصہ دار ہے۔ جن اہم امور پر بات چیت ہو گی، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ کس طرح پاکستان تعلیم، غربت میں کمی اور صنفی مساوات میں ہزاریہ ترقیاتی اہداف تیزی سے حاصل کر سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مسئلہ ہے۔ وہ نومنتخب وزیراعظم محمد نواز شریف کے ساتھ افغانستان سمیت متعدد اہم امور پر بات چیت کے منتظر ہیں۔ ہم ہمسایہ ملک افغانستان، جہاں سے امریکہ کی قیادت میں افواج 2014ءسے انخلا کر رہی ہیں، وہ امن و استحکام کے فروغ میں پاکستان کے کردار اور مضبوط تعاون کی امید رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ میں پاکستان کا دورہ کر رہا ہوں، یہ ہمارے ترجیحی ایجنڈا میں سے ایک ہے جس پر میں وزیراعظم نوازشریف اور صدر آصف علی زرداری سے بات کروں گا۔ 2014ءکے بعد اقوام متحدہ کے افغانستان میں کردار سے متعلق سوال پر بان کی مون نے کہا کہ 2014ءمیں ایساف کے انخلا کے بعد نہ صرف افغانستان اور حکومتوں میں موجود لوگوں بلکہ اقوام متحدہ اور علاقائی ممالک کے لئے بھی ایک چیلنج ہو گا۔ سکیورٹی کی صورتحال اولین ہے، افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کو اپنی سکیورٹی کے لئے اپنے طورپر ذمہ دار ہونا چاہئے، افغان سکیورٹی فورس کی استعداد کار کے بارے میں انہوں نے کہاکہ وہ امریکہ اور کلیدی یورپی ممالک سمیت ایساف رکن ممالک پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ اس کی استعداد کار میں اضافے کے لئے ضروری ساز و سامان اور وسائل مہیا کریں، یہ بہت اہم ہے، اس ضمن میں وہ امریکہ سمیت بعض ممالک کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ایک اور اہم چیلنج افغانستان میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہیں۔ یہ شفاف، معروضی اور قابل بھروسہ انداز میں ہونے چاہئیں۔ گذشتہ انتخابات میں جو کچھ ہوا، اسے کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔ کشمیر میں حالیہ صورتحال پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی، اس میں کمی اور کشمیر سمیت دیرینہ مسائل کے حل کے لئے اقدامات بارے سوال پر سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ اگرچہ میں اس تمام تر تنازعہ میں جانوں کے ضیاع پر افسردہ ہوں تاہم بات چیت کے ذریعے بنیادی تنازعے کے حل کے لئے دونوں اطراف کی جانب سے مذاکرات میں مشغول ہونے کے حالیہ اقدام سے مجھے خاصا حوصلہ ملا ہے اور جس کی میں پرزور حمایت اور خیرمقدم کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ دیرینہ مسئلہ ہے لیکن اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین لائن آف کنٹرول پر کسی تصادم سے گریز کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ فوجی مبصر گروپ کو کسی سیاسی کردار کا اختیار نہیں لہٰذا ان سیاسی مسائل پردونوں حکومتوں کے رہنماﺅں کو بات چیت کرنی چاہئے اور نبردآزما ہونا چاہے۔ اقوام سکیورٹی کونسل کے ایجنڈہ پر موجود عشروں پرانے تنازعہ کے حل کے لئے پاکستان اور بھارت کے رہنماﺅں کی معاونت کرنے سے متعلق سوال پر بان کی مون نے کہا کہ میں توقع کرتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت کی قیادت کچھ اعتماد سازی اقدامات کے لئے اپنی بات چیت جاری رکھے گی۔ اعتماد سازی ہونی چاہئے، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر بس سروس ہے۔ دہشت گردی کے عفریت اور اس کے تدارک کے حوالہ سے سوال پر انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر پوری بین الاقومی برادری کو مل کر کام کرنا چاہئے، پاکستان یا کوئی اور ملک تنہا اس مسئلہ سے نمٹ نہیں سکتا یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے دسمبر 2006ءمیں عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی وضع کی، ہمارے پاس یہ انسداد دہشت گردی عمل درآمد ٹاسک فورسز ہیں، ہم نے اقوام متحدہ انسداد دہشت گردی مراکز قائم کئے ہیں۔ یہ عالمی کاوش ہے، انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے افسوس کا اظہارکیا اور کہا کہ یہ فوری بند ہونے چاہئیں۔ القاعدہ اور دیگر انتہا پسندوں کے شام میں لڑائی میں شامل ہونے کی خبروں اور اس کے نتیجہ میں صورتحال مزید پیچیدہ ہونے کے حوالہ سے سوال پر انہوں نے کہاکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی فوجی حل نہیں۔ میں صدر بشار الاسد پر بھی زور دے رہا ہوں۔ مجھے فکر ہے کہ ان کی کچھ غلط توقعات ہو سکتی ہیں کہ وہ فوجی ذرائع سے اس مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں، ہم امن کانفرنس کے ذریعے صورتحال پر قابو پانے کے لئے سخت محنت کررہے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب متاثرین کی مدد سے متعلق سوال کے جواب میں بان کی مون نے کہا کہ 2010ءمیں انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور صدر آصف علی زرداری، وزیر داخلہ اور دیگر وزراءکے ہمراہ ہیلی کاپٹر میں جائزہ لیا تھا، انہیں بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی پر بہت دکھ ہوا تھا، اس وقت انہوں نے فوری پر جنرل اسمبلی کو خصوصی اجلاس بلانے کے لئے کہا تھا جو کہ سست سونامی جیسا تھا۔ مجھے حالیہ سیلاب میں نقصانات پر بہت افسوس ہوا ہے، میرا پیغام ہے کہ پاکستانی حکومت کو آفات کے خطرات کو کم کرنے پر زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ترجمان اقوام متحدہ پاکستان عشرت رضوی نے کہا ہے کہ بان کی مون 14 اگست کو یوم آزادی کی تقریب میں شرکت کریں گے۔ بان کی مون صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقاتیں کریں گے۔ وہ مشیر وزیراعظم سرتاج عزیز اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

ای پیپر-دی نیشن