پنجاب اسمبلی: حکومتی و اپوزیشن ارکان کا بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر کرانے کا مطالبہ
لاہور(خصوصی رپورٹر+خصوصی نامہ نگار+سٹی رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں مسودہ قانون مقامی حکومت 2013ءپر بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی اور اپوزیشن ممبران کی اکثریت نے مقامی حکومتوں کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروائے جانے، دیہی شہری تقسیم کے خاتمے، پنچایت سسٹم لانے کے حق میں دلائل دیئے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے چودھری امجد علی جاوید نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت اختیارات صوبوں کو منتقل کئے گئے اب انہیں نچلی سطح پر بھی منتقل کرنا ہوگا۔ انہوں نے ڈی سی اوز اور ای ڈی اوز کو مسودہ قانون کے مطابق زیادہ بااختیار بنانے اور منتخب نمائندوں کے سر پر بٹھانے پر شدید نکتہ چینی کی۔ مسلم لیگ (ن) کے افتخار احمد نے بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروانے کا مطالبہ کیا اور شہری اور دیہی علاقوں میں تقسیم کو جمہوریت کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ تحریک انصاف کے آصف محمود نے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروانے اور اختیارات کو آئین کے آرٹیکل 140 اے کی سپرٹ کے مطابق دیئے جانے پر زور دیا، تحریک انصاف کے ملک تیمور نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام میں صحت اور تعلیم کے لئے اتھارٹیاں بنا کر مقامی حکومت کے نظام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔ اقلیتی رکن اسمبلی ذوالفقار غوری نے کہا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے لوگل گورنمنٹ آرڈیننس پر بحث کرانے کا فیصلہ انتہائی خوش آئند ہے تاہم میں تجویز دینا چاہتا ہوں کہ بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی کرائیں جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نئے چہرے سامنے آ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک یونین کونسل میں مینارٹی کی تعداد کو 500 سے کم کر کے 200 کر دیا جائے۔ تحریک انصاف کی رکن اسمبلی نبیلہ حاکم علی نے بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر کرانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ بلدیاتی الیکشن جنرل الیکشن کی طرح جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں۔ تمکین اختر نیازی نے کہا کہ اختیارات کی نچلے درجہ تک منتقلی کے لیے بلدیاتی الیکشن ضروری ہیں۔ اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ حکومت کو نئے بلدیاتی نظام کے ذریعے بلدیاتی اداروں اور عوامی نمائندوں پر بیوروکریسی مسلط کرنا چاہتی ہے، بل میں ابہام ہے کوئی چیز واضح نہیں، شہری اور دیہی نظام کی تفریق سے مسائل اور اخراجات بڑھیں گے، بلدیاتی نظام میں تمام عہدوں کے لئے براہ راست انتخابات کرائے جائیں‘ غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے سے ہارس ٹریڈنگ اور خریدو فروخت فروغ پائے گی۔ مسلم لیگ ق کے سردار وقاص اختر موکل نے کہا کہ نظام تبدیل ہی کرنا ہے تو اس پر ہر پہلو کو سامنے رکھ کر تفصیلی بحث کی جائے۔ بل منظور کرانے کی حکومتی جلدی سے صوبہ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ بل میں عوامی مینڈیٹ سے منتخب ہونے والوں کو بیورو کریسی کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ایسا نظام اپنانا چاہئے جسے برسوں تک تبدیل کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ پیپلزپارٹی کے قاضی احمد سعید نے کہا کہ بلدیاتی ادارو ں اور نمائندوں کو مالی اور انتظامی اختیارات دیئے بغیر مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کو ہٹانے کا اختیار وزیر اعلیٰ کو دینا عوامی مینڈیٹ کی توہین اور افسوسناک ہے۔ حکومتی رکن اسمبلی ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ بل میں صوبائی مالی کمشن میں بلدیاتی نمائندوں کی تعداد کو بڑھایا جانا چاہئے۔ دیہی اور شہری تقسیم سے اخراجات میں اضافہ ہو گا۔ آئی این پی کے مطابق ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ کونسلرز کیلئے کم از کم 500 ووٹ لینے کی پابندی نہ لگائی جائے اور غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروانے سے کرپشن کا بازار گرم ہو جائیگا، چیئرمین اور وائس چیئرمین کے الیکشن بھی براہ راست ہونے چاہئیں۔ بعدازاں اجلاس جمعرات 15 اگست تک ملتوی کردیا گیا۔