• news

قومی اسمبلی: بھارتی جارحیت‘ اشتعال انگیزی کیخلاف قرارداد مذمت متفقہ منظور

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + خبر نگار خصو صی + خبر نگار) قومی اسمبلی نے لائن آف کنٹرول پر بھارت کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے حوالے سے قرارداد مذمت کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جانب سے اشتعال انگیز کارروائیوں، نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن اور پی آئی اے کے دفتر کے باہر مظاہروں کی شدید مذمت کرتا ہے اور بھارتی میڈیا میں پاکستان کے حوالے سے منفی پراپیگنڈے کو بلا جواز قرار دیتا ہے۔ ایوان بھارت پر زور دیتا ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول پر 2003ءکے سیزفائر کے معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بنائے اور دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات کے حوالے سے اعتماد سازی کے اقدامات کو نقصان پہنچانے کی کارروائیوں سے اجتناب برتا جائے۔ یہ ایوان اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کی حمایت جاری رکھے گا۔ سپیکر نے قرارداد ایوان میں پیش کی جس کی ایوان نے اتفاق رائے سے منظوری دیدی مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین گفت و شنید کے راستے بہت مشکل سے نکلے ہیں، ہمیں فیصلے جذبات سے نہیں کرنے چاہئیں۔ بھارتی سیاسی جماعتیں جو باتیں کر رہی ہیں وہ غلط ہیں لیکن ہمیں بھی یکطرفہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ دونوں طرف ایسی قوتیں ہیں، امن صرف پاکستان نہیں بھارت کے بھی مفاد میں ہے۔ اقوام متحدہ کی قیادت کو بھی صورتحال سے آگاہ کیا جائے اب جنگوں کا زمانہ بیت گیا۔ ہماری سیاسی قیادت کی پالیسی زبردست ہے بی جے پی کا الیکشن ہی تب بنتا ہے جب سرحدوں پر کشیدگی ہو لیکن مسلم لیگ (ن) کی پالیسی پڑوسیوں سے اچھے تعلقات رکھنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ حکومت کو بھارت کی طرف سے غیر روایتی جارحیت کا سخت نوٹس لینا چاہئے، بھارت کے ساتھ دوستی ملکی سالمیت کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے۔ شیخ رشید احمد نے اجلاس کے شروع ہوتے ہی پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے سپیکر سے معمول کی کارروائی کو معطل کر کے اس ایشو پر بحث کرنے کی استدعا کی اور بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی پر متفقہ قرارداد ایوان میں لانے کی تجویز دی جس پر مسلم لیگ (ن) کے رانا تنویر نے کہا کہ کارروائی معطل کرنے سے قبل قرارداد پر تمام ایوان کو متفق ہونا چاہئے، اس پر شیخ رشید احمد اور زاہد حامد کے درمیان براہ راست بحث شروع ہو گئی اور تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جب معاملہ طول پکڑ گیا تو سپیکر نے دونوں ممبران کو خاموش کرا دیا، سپیکر نے شیخ رشید احمد کو کہا کہ وہ قرارداد کا متن مل بیٹھ کر تیار کر لیں مگر خواجہ سعد رفیق اس بات پر بضد رہے کہ پہلے قرارداد کا متن انہیں بتایا جائے اور شیخ رشید جو لکھ کر لائے ہیں اسے من و عن کیوں پیش کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے متفقہ قرارداد پیش کرنی ہے تو پھر اختلاف کس بات کا، مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں اس ایشو پر متفق ہونا چاہئے، ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ حکومت کو آخر کیا جھجک ہے کہ وہ قرارداد کیوں نہیں لانا چاہتی، قرارداد لانے کے طریقہ کار پر آدھا گھنٹہ بحث جاری رہی اور بالآخر سپیکر نے رانا تنویر کی طرف سے پیش کی جانے والی تحریک پر معمول کی کارروائی معطل کر کے بحث کی اجازت دے دی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کے ان اقدامات کے خلاف دوٹوک الفاظ میں اپنا م¶قف اختیار کرنا چاہئے، جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھارت اور پاکستان کے وزیراعظموں کی ملاقات متوقع ہے مگر اس سے قبل ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ اس ملاقات کا کوئی فائدہ نہ رہے اور وہ محض فوٹو سیشن رہ جائے۔ آن لائن کے مطابق حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ بھارت کو اس کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا اور پاکستان کی جانب اٹھنے والی کسی بھی میلی آنکھ کو پھوڑ دیا جائے گا۔ 

ای پیپر-دی نیشن