لوڈ شیڈنگ کیس میں معاونت کرنے والوں کا تحفظ عدالت کی ذمہ داری ہے: ہائیکورٹ ‘ لیسکو چیف کل طلب
لاہور(وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے عدالت کی معاونت کر نے والوں کو تحفظ فراہم کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے۔ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت عدالت کو اختیار ہے وہ عدالتوں میں معاونت کرنے والوں کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کے معاملات کو دیکھ سکے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ ریمارکس لوڈ شیڈنگ کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ فاضل عدالت نے چیف ایگزیکٹو لیسکو ارشد رفیق کو ذاتی طور پر طلب کرتے ہوئے مزید سماعت کل15اگست تک ملتوی کر دی۔ درخواست گذار محمد اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا محمد سلیم کو پہلے چیف ایگزیکٹو لیسکو اور پھر 22 جولائی کو ٹیکنیکل ڈائریکٹر کے عہدے سے اس وقت ہٹا دیا گیا جب لاہور ہائیکورٹ میں ڈیسکوز کے چیف ایگزیکٹوز کی تعیناتی کے بارے میں کیس کی سماعت ہو رہی تھی۔ وزارتِ پانی و بجلی کے وکیل خواجہ احمد طارق رحیم نے عدالت کو بتایا سابق چیف لیسکو محمد سلیم کو ٹیکنیکل ڈائریکٹر سے ہٹا کر او ایس ڈی لگانے کا وفاقی حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ درخواست گذار نے بتایا مختلف عہدیداروں کو عہدوں سے ہٹانے کا یہ عمل ثابت کرتا ہے حکومت عدالتی کام میں مداخلت کر رہی ہے۔ آرٹیکل 204 کی روشنی میں محمد سلیم کو ٹیکنیکل عہدے اور الیاس خان کو لیسکو کے وکیل کے عہدے سے ہٹانا توہینِ عدالت ہے۔ لہذا موجودہ چیف ایگزیکٹو لیسکو کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے خواجہ احمد طارق رحیم نے عدالت کو بتایا وفاقی حکومت عدالتوں کی عزت کرتی ہے اور ایسا کوئی آرڈر پاس نہیں کیا جس سے عدالتی کاموں میں مداخلت ہو۔ عدالت نے قرار دیا لوڈ شیڈنگ سے متعلق کیس میں جو عدالت کی معاونت کر رہے تھے اُن کو تحفظ فراہم کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے۔ درخواست گزار نے بتایا حج کیس اور انیتا تراب کیس میں یہ اصول متعین ہو چکا ہے کسی آفیسر کو بغیر کسی وجہ کے عہدے سے ہٹایا جاسکتا اور نہ ہی ٹرانسفر کیا جاسکتا ہے۔ محمد سلیم جب چیف ایگزیکٹو لیسکو تھے تو انہوں نے عدالت کی معاونت کی اور واضح طور پر کہا تھا وہ بجلی چوروں کیخلاف کارروائی کر رہے ہیں کل انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائیگا اور یہی ہوا۔ درخواست گذار نے عدالت کو بتایا لیسکو میں محمد سلیم سب سے سینئر ہیں اور تین جونئیر آفیسر کے نیچے سزا کے طور پر انہیں بٹھا دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے ریمارکس دیئے اِس بات پر اگلی تاریخ پر عدالت قانونی طور پر فیصلہ کریگی۔