• news

” آزادی کی دیوی!“

قدیم دَور میں اور بعد میں بھی،دُنیا کے مختلف مذاہب میں۔ دیومالا (Mythology) کا بنیادی کردار رہا ہے۔ قدیم یونان، ہندوستان، روم، چین، مصر، عراق اور کئی دوسرے مُلکوں کے، مذاہب کی ابتدائی شکل دیومالا ہی تھی۔ ہندوﺅں نے پُوجا پاٹھ کے لئے، 6کروڑ دیوتا اور دیویاں بنا رکھی ہیں۔ 5اگست کو ایوانِ کارکنان ِ تحریکِ پاکستان میں، کثیر تعداد میں گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس خواتین سے خطاب کرتے ہوئے، تحریکِ پاکستان کے مجاہد جناب مجید نطامی نے کہا کہ۔ ”پاکستان کی ہر خاتون۔ ہندوﺅں کی،ہر دیوی سے افضل ہے“۔ عجیب بات ہے کہ، جناب نظامی نے اپنی تحریر یا تقریر میں کبھی نہیں لِکھا یا کہا کہ۔ ”پاکستان کا ہر مرد۔ ہندوﺅں کے ہر دیوتا سے افضل ہے“۔ شاید اِس لئے کہ، نظامی صاحب نے، قائدِ اعظمؒ کے بعدپاکستان میں، کسی دَور میں بھی۔ ”مرد ِ کامل“۔ نہیں دیکھا۔ حالانکہ سبھی قوموں کے دیوتاﺅں میں، بھی انسانوں کی سی بُری خصلتیں ہوتی تھیں۔ کئی دیوتاﺅں کے تو اپنی بیٹیوں اور بہنوں سے بھی جنسی تعلقات تھے۔
مقدُونیہ (یونان) کے سکندرِ اعظم کا، مختلف مُلکوں کو فتح کرنے کے بعد، غرور بہت بڑھ گیا تھااور اُس نے خود کو، آسمان کے دیوتا اور دیوتاﺅں کے بادشاہ۔ جوپیٹر (Jupiter) کا بیٹا۔ مشہور کر دیا۔ اُس نے اہلِ یونان کو پیغام دیا کہ۔ ”مجھے بھی دیوتاﺅں میں شمار کر لو“۔ اہل ِ یونان نے، سکندراعظم کے اِس پیغام کو پاگل پن قرار دیا، لیکن اہلِ سپارٹا نے کہا۔ ”اگر سکندر دیوتا بننے والا ہے تو اُسے بن لینے دو!“۔ قائدِ اعظمؒ کے آباﺅ اجداد کشّتری۔ (راجپوت)۔ تھے۔ دلچسپ اتفاق ہے مجید صاحب بھی راجپوت ہیں یعنی والد صاحب کی بیعت کی وجہ سے نظامی کہلاتے ہیں۔ اگر (خدانخواستہ)۔ قائدِاعظمؒ ہندو ہوتے اور ہندوﺅں کے لیڈربھی تو،اپنی عظمت اور ولولہ انگیز قیادت کی وجہ سے، ضرور دیوتا کہلاتے۔ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے۔ تحریکِ پاکستان میں، اپنے برادرِ بزرگ کے شانہ بشانہ کام کِیا تھا، لیکن قائدِاعظمؒ نے گورنر جنرل پاکستان بننے کے بعداپنی بہن کو مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عُہدہ نہیں دِیا اور نہ ہی عظیم بھائی کی عظیم بہن نے، اپنے لئے کوئی عُہدہ مانگا۔ قائدِاعظمؒ کی جائیداد بہت تھی لیکن اُنہوں نے ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام وقف کر دیا۔ مسلما ن جمہوری لیڈروں میں سے ، اِس طرح کی مثال، اتاتُرک مصطفےٰ کمال پاشا نے قائم کی تھی۔ انہوں نے بھی اپنی ساری جائیداد قوم کے نام وقف کر دی تھی۔ اُن کے بعدجمہوریہ ترکیہ کے موجودہ وزیرِاعظم، جناب طیّب اردگان اور ایران کے سابق صدر جناب محمود احمدی نژاد۔ کا شمار مثالی جمہوری، مسلمان حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ پرانے زمانے میں ہوتے تو، اِن دونوںکو،بھی دیوتا ہی کہا جاتا۔ عوامی جمہوریہ چین کے بانی، قائدِ انقلاب،چیئرمین ماﺅزے تُنگ نے، انتقال کیا توترکے میںصِرف چھ جوڑے کپڑے (وردیاں) کچھ کتابیں اور بنک میں چند ڈالر چھوڑے۔
دیومالائی نظام کے تحت ہر قوم کے نجات دہندہ کو دیوتا ہی کہا گیا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ کے لوگوں کو آزادی دِلانے والے اور انسانوں کی غلامی کا خاتمہ کرنے والے۔ ابراہیم لنکن بھی کسی دیوتا سے کم نہیں تھے۔ ریاست ہائے امریکہ نے، 4جولائی 1776ءکو برطانیہ¿ عظمیٰ کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر، آزادی کا اعلان کیا، لیکن امریکیوں نے، 110سال تک آزادی کی کوئی یادگار قائم نہیں کی۔ یہ اعزاز اہلِ فرانس کو حاصل ہُوا، جنہوں نے دوستی کی علامت کے طور پر، امریکیوں کو28اکتوبر1886ءکو۔ مجسمہءآزادی (Statue of Liberty) کا تحفہ پیش کیا۔ ہم نے 1947ءمیں، آزادی حاصل کی، لیکن 13سال تک ،کسی بھی قومی قائد کو، آزادی کی یادگار قائم کرنے کا، خیال ہی نہیں آیا۔23 مارچ 1940ءکو، لاہور کے منٹو پارک۔ (اب علّامہ اقبالؒ پارک)۔ میںقائدِاعظمؒ کی قیادت میں، آل انڈیا مسلم لیگ نے ،مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کِیا تھا،چنانچہ اِسی جگہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دَور میں، 1960ءمیں مِینارِپاکستان کی تعمیر شروع ہوئی جو،1968ءمیں مکمل ہوئی۔
”مجسّمہءآزادی“۔ نیویارک بندرگاہ کے درمیان۔ جزیرہ آزادی (Liberty Island) میں نصب ہے۔ اُسے فرانسسیسی مجسّمہ ساز۔ مسٹر فریڈرک آگسٹ بار تھولڈی نے بنایا تھا۔ آزادی کی رومن دیوی۔ "Libertas"۔ کے نمونے پر۔ مجسّمہ¿ آزادی۔ رومن لباس پہنے، ایک مشعل برادر خاتون جِس کے ہاتھ میں قانون کی تختی بھی ہے اور غلامی کی ٹوٹی ہوئی زنجیریں،اُس کے پَیروں میں پڑی ہیں۔ دُنیا کے کسی بھی کونے سے، جب بھی کوئی شخص، سرکاری یا نجی دَورے پر، نیویارک جاتا ہے تو میزبان اُسے، مجسّمہ¿ آزادی ضرور دکھاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف ، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے گئے تو مَیں، اُن کی میڈیا ٹیم کا رُکن تھا۔ اجلاس کے اختتام کے بعد میرا بڑا بیٹا ذوالفقار علی چوہان۔ بہو ڈاکٹر عالیہ چوہان اور چھوٹا بیٹا انتظار علی چوہان،مجھے مجسّمہ¿ آزادی دکھانے لے گئے۔ دوسری بار مَیں۔ 2003ءمیں نیویارک گیا تو، ہم سیر پر نِکلے ۔ انتظار علی چوہان نے کہا۔ ”ابوجی! مجسّمہ¿ آزادی دیکھنے چلیں!“۔ مَیں نے کہا۔ اگر۔ ”مجسّمہ¿ آزادی“۔ میں کوئی تبدیلی آگئی ہے یا اقوامِ عالم کی آزادی کے بارے میں امریکہ کا نظریہ بدل گیا ہے تو، مجسّمے کو دوبارہ دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، ورنہ ایک بار دیکھنا ہی کافی ہے۔ دُوہری شہریت رکھنے والے۔ میرے بچوں کے پاس، شرمندہ ہونے کے سِوا اور کئی چارہ نہیں تھا۔ صِرف اکہری شہریت۔ ( امریکی شہریت)۔کے حامل کسی بھی شخص کو، اِس سوال پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
آج یومِ آزادی کے موقع پر۔ 14اگست کو، صبح ساڑھے دس بجے۔ محترم مجید نظامی کی صدارت میں، کارکنانِ تحریکِ پاکستان۔ (Gold Medalists) اور بہت سے دوسرے اصحاب کی خصوصی تقریب کے آغاز سے قبل، جنابِ نظامی، کارکنان ِتحریک پاکستان کے ہمراہ، پرچم کُشائی کررہے ہیں اور ”مادرِ ملّت پارک“ میں، شُہدائے تحریکِ پاکستان کی یادگار پر، پھولوں کی چادر چڑھا رہے ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ”مادرِ ملّت“ کا خطاب جنابِ مجید نظامی نے دِیا تھا۔ مَیں نے اپنے غیر مُلکی دوروں میں، کئی گرجوں میں ”مقدس ماں“۔ حضرت مریم ؑ کے مجسّمے اور تصویریں دیکھی ہیں۔ 1964ءمیں، مَیں نے، لاہور میں، مادرِ ملّت کو قریب سے دیکھا اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابل صدارتی امیدوار کی حیثیت سے، بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے بھی۔ وہ مُقدس ماںمریمؑ اور آزادی کی رومن دیوی ۔"Libertas" ۔ کا مکمل روپ تھیں۔ مادرِ ملّت بظاہر ہار گئی تھیں، لیکن انہوں نے، فیلڈ مارشل کی آمریت کا قلعہ پاش کر دیا تھا۔ 5اگست کی تقریب میں، پروفیسر، ڈاکٹر پروین خان کی کوششوں سے(بقول نظامی صاحب) ہندو دیویوں سے افضل خواتین جنابِ نظامی کاخطاب سننے کے لئے اکٹھی ہوئی تھیں۔ ممکن ہے، مستقبل میں، اُن میں سے ہی کوئی۔ مادرِ ملّت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آزادی کی دیوی بن جائے!

ای پیپر-دی نیشن