دہشت گردوں کے خلاف جنگ ؟
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل ،بان ۔کی مُون کا تعلق جنوبی کوریا سے ہے ۔ بظاہر وہ پاکستان میں جشنِ آزادی کی تقریبات میں شرکت کے لئے ،تشریف لائے ہیں۔ایک تقریب میں ،انہوں نے کہا کہ ۔”پاکستان اگر چاہے تو مَیں ،مسئلہ کشمیر پر ، بھارت کے ساتھ، اُس کی ثالثی کرانے کو تیار ہوں!“۔حالانکہ موصوف جانتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ۔” ثالثی کا مسئلہ “۔ نہیں ہے ۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے، کئی بارجو قرار دادیں منظور کی ہیں اُن میں تو یہ کہا گیا ہے کہ ۔” کشمیری عوام کو ،اپنے حقِ خودارادیت کے ذریعے،خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دِیا جائے!“۔ بائی دی وے۔ بان۔ کی ۔ مُون صاحب یہ بھی بتا دیں کہ وہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ،شمالی اور جنوبی کوریا میں ۔ثالثی ۔کیوں نہیں کرا سکے؟۔
گذشتہ کئی سالوں سے ، پاکستان میں دہشت گردی اور بھارتی حُکمرانوں کی ،ٹال مٹول کی مستقل عادت کی وجہ سے ،مسئلہ کشمیر ۔پس منظر میں چلا گیا ہے ۔کشمیر کاز کے چیمپئن ،ذُوالفقار علی بھٹو کے ۔”رُوحانی فرزند “۔جناب آصف زرداری نے تو ،صدارت کا منصب سنبھالتے ہی فرمایا تھا کہ۔” کیوں نہ مسئلہ کشمیر ،30سال کے لئے ،منجمد کر دِیا جائے؟۔ بہر حال وہ 5سال تک تو،مسئلہ کشمیر منجمد کرنے میں کامیاب ہی رہے۔میاں نواز شریف کو 11مئی کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل ہوئی تو،میڈیا کے ذریعے ،اُن کی سب سے بڑی یہ خواہش منظرِ عام پر آئی کہ ۔” کیا ہی اچھا ہو کہ وزیرِاعظم کی حیثیت سے ،میری حلفِ وفاداری تقریب میں ،بھارتی وزیرِاعظم ،ڈاکٹر مَن موہن بھی شریک ہوں ۔حلفِ وفاداری کی تقریب نہ ہوئی،بھارت /پاکستان مشاعرہ ہو گیا ۔ڈاکٹر مَن موہن سِنگھ ،طرح دے گئے ۔ اُدھر لائن آف کنٹرول پر ،بھارتی فوج کی اشتعال انگیزیوں نے بھی حالات کو تبدیل کر دیا، ورنہ ممکن تھا کہ ،کشمیری وزیرِاعظم کے دَور میں ،بھارت کو پاکستان کا پسندیدہ ترین مُلک قرار دے دیا جاتا ۔
ہمارے یہاں امریکہ کا تسلط تو ،شروع سے ہی ہے ،لیکن بعض سیاسی راہنماﺅں نے ،عوام کو امریکہ کا ہوّا دِکھا کر ،اُنہیں اپنی طرف راغب کرنے کی پالیسی اپنا کر ،سیاسی مفادات حاصل کئے۔ 2002ءکے عام انتخابات سے قبل متحدہ مجلس ِ عمل کے قائدین ،خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن ،قاضی حسین احمد اور مولانا شاہ احمد نورانی ،عام جلسوں میں کہا کرتے تھے کہ ۔” ہم پاکستان کو امریکیﺅں کا قبرستان بنا دیں گے“۔ نتیجے میں جمعیت عُلماءاسلام کو صوبہ سرحد کی حکومت مِل گئی اور مولانا فضل الرحمٰن قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف تسلیم کر لئے گئے ۔اُس دور میں، وزیرِ پارلیمانی امور ڈاکٹر شیر افگن نے قومی اسمبلی کے ایوان میں کہا تھا کہ ۔” مولانا فضل الرحمٰن کو اِس لئے ،قائد ِ اختلاف بنایا گیا ہے کہ وہ ،صدر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کی حمایت کریں گے“۔ مولانا نے ڈاکٹر صاحب کے اِس بیان کی تردید نہیں کی تھی۔متحدہ مجلسِ عمل میں شامل مذہبی جماعتوں کے اکابرین کے، ایک دوسرے کے خلاف کُفر کے فتوے ریکارڈ پر ہیںاورعلّامہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ کے خلاف بھی ۔جمہوریت پر وہ ایمان قیامِ پاکستان کے بعد لائے ۔ انتخابات میں کبھی بھی، کسی بھی مذہبی جماعت کو ،اکثریت حاصل نہیں ہوئی ۔مولانا مودودی (مرحوم) سمیت کئی عُلماءکا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان میںانتخابات کے ذریعے ۔”’ اسلامی انقلاب“۔نہیں آ سکتا ۔اسلام آباد کی سرکاری مسجد۔لال مسجد کے ملازم خطیب، مولانا عبدالعزیز اور اُن کے بھائی نائب خطیب مولانا عبدالرشید غازی نے لال مسجد میں مسلح ، عسکریت پسندوں اور خُود کُش حملہ آوروں کو پناہ دے کر ، اپریل 2007ءمیں۔”اسلامی انقلاب“۔ کا اعلان کِیا ۔مولانا عبدالعزیز نے خود۔” امیر اُلمومنین “۔ کا لقب اختیار کر کے مُلک میں ،شریعت کا نفاذ کر دِیا ۔ شریعت کورٹ قائم کر دی ۔ 6اپریل 2007ءکو مولانا عبدالعزیز کا یہ بیان۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نمایاں ہوا کہ ۔” اگر حکومت نے شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالی اور لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ ، طلبہ اور طالبات کے خلاف کارروائی کی تو۔پُورے مُلک میں ۔فدائی حملے ۔ ہوں گے“ ۔پھِر ایسا ہی ہوا اور پاکستان ۔دہشت گردی کا شکار ،دنیا کا سب سے بڑا مُلک بن گیا ۔مجبوراً پاک فوج کو لال مسجد میں پناہ گزین عسکریت پسندوں کے خلاف 3جولائی2007ءکو، فوجی آپریشن کرنا پڑا ۔جِس میں مولانا عبدالرشید غازی سمیت 103 عسکریت پسند مارے گئے اور 11فوجی افسران اور جوان بھی شہید ہُوئے۔
شریعت کورٹ کے جج، جسٹس شہزادو شیخ پر مشتمل ۔” لال مسجد کمِشن “۔ کی رپورٹ، اپریل کے تیسرےءہفتے میں شائع ہُوئی ،جِس میں پاک فوج کو ،آپریشن ۔( Operation Sunrise) ۔سے بری اُلزمہ قرار دِیا گیا اور کہا گیا کہ ۔” ہتھیاروں کے کم از کم استعمال کے نتیجے میں، فوج کو جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا کیونکہ مسجد میں پناہ گزین ،عسکریت پسند ، بلا اشتعال فائرنگ اور خُود کش حملوں کے لئے مکمل طور پر تربیت یافتہ تھے۔فوج صِرف اُس وقت فائرنگ کرتی جب مسجد کے اندر سے فائر ہوتا ۔ آپریشن کے دوران، مولانا عبدالعزیز برقع پہن کر فرار ہو گئے تھے ۔آج سے تین روز پہلے بھی،دہشت گردی ایکٹ کے ۔"Forth schedule"۔ کے تحت(یعنی دہشت گردی میں ملّث ہونے کے شُبہ میں ،اُن کی گرفتاری کے لئے ، جب اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ کے ایس۔ ایچ۔ او ۔نے جب چھاپہ مارا تو ، مولانا۔پھِر روپوش ہو گئے۔ صدر زرداری کی نہ جانے کیا مجبوری ۔(کمزوری)۔ تھی کہ، لال مسجد پر پھِرمولانا عبدالعزیز کا قبضہ کرا دِیا گیا؟۔ مذہبی جماعتوں کا ہمیشہ ۔دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رہا ہے۔12جولائی2007ءکو اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن ،قاضی حسین احمد ( مرحوم) اور مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا تھا کہ ۔” لال مسجد آپریشن کے دوران مارے جانے والے فوجیوں کو شہید قرار نہیں دیا جا سکتا “۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاک فوج کا ذہن صاف ہے ۔یکم مئی کو اسلام آباد میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے شُہداءکی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے ،چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا ۔” ہم عظیم قربانیوں کے باوجود ،اُس منزل سے دُور ہیں جِس کا خواب علّامہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ نے دیکھا تھا ۔13اگست کو جنرل کیانی نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے قوم سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ ۔” ہم مذاکرات کے لئے بھی تیار ہیں اور جنگ کے لئے بھی“۔ 14اگست کی تقریر میں ،وزیراعظم نواز شریف نے ،پاکستان کو ،قائدِاعظمؒ کے تصّور کے مطابق ایک ترقی پسند اور فلاحی مملکت بنانے کا عزم کی تجدید کی اور دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم اور پاکستان کی مسلح افواج کے اتحاد پر بھی زور دِیا ۔سوال یہ ہے کہ دہشت گرد توجمہوریت کو کافرانہ نظام کہتے ہیں اور پاکستان کے آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے ۔کیا وہ راہِ راست پر آجائیں گے؟۔ حکومت، فوج اور پوری قوم کو بہت جلدفیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم دہشت گردوں کے سامنے جھُک جائیں ؟۔