انٹرنیشنل باکسر میجر (ر) عبدالرشید ’جنگ آزادی کا سپاہی
اسحاق بلوچ
میجر ریٹائرڈ عبدالرشید کا انٹرنیشنل باکسنگ سرکٹ میں بڑا نام ہے اس کے ساتھ ہی وہ قومی تاریخ میں بھی منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ میجر عبدالرشید نے بحیثیت سابق انٹرنیشنل باکسر‘ باکسنگ کوچ‘ انٹرنیشنل ریفری جج اور پاکستان باکسنگ فیڈریشن کے سیکرٹری کی حیثیت سے باکسنگ کھیل کی مثالی خدمت کی جبکہ ان کا فوجی کیرئیر بھی بھرپور رہا۔ قیام پاکستان کے وقت وہ کیپٹن کے رینک پر برٹش آرمی سے منسلک تھے جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو ایک محب وطن سپاہی کی حیثیت سے میجر (ر) عبدالرشید نے مشرقی پنجاب میں پھنسے ہوئے ہزاروں خاندانوں کی پاکستانی سرزمین پر منتقلی میں عملی طور پر حصہ بھی لیا جبکہ کشمیر کے محاذ پر بھی لڑے۔ تقسیم ہند کے وقت جب لاکھوں مہاجرین پنجاب کے مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے تھے‘ ان کی امداد کرنا اور کلکتہ کے بدنام زمانہ ہندو مسلم فسادات کے دوران میجر رشید کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یوم آزادی کی مناسبت سے نمائندہ نوائے وقت نے اپنے وقت کے کامیاب باکسر اور جنگ آزادی کے سپاہی میجر ریٹائرڈ عبدالرشید سے خصوصی نشست کی۔ اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے میجر عبدالرشید نے کہا کہ پاکستانی قوم اپنے مسائل کو ازخود حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اگر ہم ایک مخلص اور باعمل مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزاریں تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور اللہ ہماری مدد کرے گا۔ میجر رشید نے کہا کہ میرا خاندانی تعلق کشمیر سے ہے اس لئے بچپن سے آج تک میں کشمیر کاز کے لئے لڑتا رہا ہوں۔ 1931ءمیں پہلی بار کشمیر گیا جبکہ 1941ءمیں دوران تعلیم اسلامیہ کالج لاہور میں بابائے قوم قائد اعظم سے ملاقات کی اور ان کی شخصیت سے متاثر ہو کر آرمی جوائن کی تاکہ مسلمانوں کی خدمت کر سکوں۔ پہلی جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر خدمات انجام دیں‘ جنگ کے فوراً بعد جب میری تعیناتی کلکتہ میں تھی تو ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اس وقت میں نے ایک فوجی کی حیثیت سے بڑھ کر مسلمانوں کی مدد کی اور ہندو بلوائیوں کا قلعہ قمع کیا۔ اس وقت کے معروف سیاستدان حسین شہید سہروردی نے میری کارکردگی کو سراہتے ہوئے خصوصی ملاقات کی اور فسادات کے سدباب کے لئے کمیٹیاں بنانے میں میری مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ میں کیپٹن کی حیثیت سے آن ڈیوٹی تھا لیکن میں نے مسلمانوں کے تحفظ کے لئے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ تقسیم ہند کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگست 1947ءمیں میری ڈیوٹی امرتسر کے علاقے کوتوالی میں تھی وہاں کے حالات صحیح نہیں تھے میں اپنے لوگوں کو تحفظ دینا اور پاکستان شفٹ کرنا چاہتا تھا اس لئے چھٹی لے کر لاہور آیا اور وہاں سے دوبارہ مشرقی پنجاب کے علاقوں میں جا کر بلوائیوں سے مسلمانوں کو بچانے کی عملی کوشش کی۔ مختلف علاقوں میں کیمپ لگائے اور لوگوں کو پاکستانی علاقوں میں شفٹ کرانے کے پروگرام پر عمل کیا۔ قیام پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلمان وطن کی آزادی کے جنون میں مبتلا تھے۔ ان کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ آتی تو اس کو پھلانگ کر آگے نکلتے لیکن اب قوم میں وہ جذبہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1948ءمیں ایسا بھی وقت آیا‘ اگر ہماری فوجوں کو روکا نہیں جاتا تو آج مسئلہ کشمیر کا وجود نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ 27 اکتوبر 1947ء مجھے اچھی طرح یاد ہے‘ یہ وہ دن ہے جب بھارت نے اپنی فوجیں جہازوں کے ذریعے کشمیر میں اتار کر ہماری سرزمین پر جبری قبضہ کر لیا۔ یہ ہماری بے بسی کی انتہا تھی‘ اس غاصبانہ قبضے کے خلاف آج بھی کشمیری عوام دنیا بھر میں یوم سیاہ مناتے ہیں۔ اس وقت کشمیر کی آزادی کی عملی جدوجہد میں 80 ہزار جانیں ہم نے قربان کیں لیکن ان سب قربانیوں کا صلہ ابھی تک ہمیں نہیں ملا۔ میجر رشید نے 16 سال کی عمر میں باکسنگ رنگ میں ا نٹری حاصل کی۔ 1938ءسے 1951ءتک مختلف مقابلوں میں حصہ لیا۔ پنجاب ناردرن انڈیا اور انٹرنیشنل مقابلے جیتے۔ 1951ء سے 1961ء تک پاکستان آرمی کے مختلف یونٹوں کی کوچنگ کی جبکہ 1961ءسے 1971ء تک پاکستان آرمی باکسنگ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے ساتھ ساتھ پاکستانی باکسنگ ٹیم کی بھی کوچنگ کی اس دوران پاکستان آرمی اور پاکستان باکسنگ ٹیم ایشیا کی کامیاب اور مستحکم ترین ٹیم سمجھی جاتی تھی۔ پاکستان نے ایشیائی سطح پر بے شمار میڈلز جیتے۔ 1996ءمیں آخری بار پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کی جو اولمپکس کی تیاری کر رہی تھی اس طرح 1948ءسے 1996ء تک پاکستان کی تمام اولمپک سکواڈز کی تربیت میں عملی اور فنی طور پر حصہ لیا۔ میجر (ر) عبدالرشید نے 1962ءمیں باکسنگ کے انٹرنیشنل جج کا امتحان کامیابی سے پاس کیا اور بعدازاں عالمی ریفری کے امتحان میں بھی کامیاب ہوئے۔ اس طرح انہوں نے 1983ءتک عالمی مقابلوں میں ریفری جج کے فرائض انجام دئیے۔ 1983ءمیں وہ ریفری جج کی حیثیت سے جب ریٹائرڈ ہوئے تو انٹرنیشنل باکسنگ گورننگ باڈی (آئیبا) نے ان کو تا حیات اعزازی ریفری جج کا ڈپلومہ بطور انعام دیا اور ان کو فوری طور پر انٹرنیشنل ریفری جج کمیشن کا ممبر بھی نامزد کیا گیا‘ اس طرح وہ چار میعاد تک آئیبا کے انٹرنیشنل ریفری جج کمیشن کے ممبر رہے۔ اس حیثیت سے وہ 2004ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ 1996ءمیں میجر (ر) عبدالرشید کو انٹرنیشنل اولمپکس کونسل نے ٹیکنیکل ایڈوائزر مقرر کیا‘ تاہم وہ 2000ءاور 2004ءاولمپکس میں بیماری کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکے۔ اس دوران وہ پاکستان باکسنگ فیڈریشن کے سیکرٹری شپ سے بھی ریٹائرڈ ہوئے۔ میجر عبدالرشید ایک سپاہی‘ ایک باکسر اور ایک اعلیٰ باکسنگ منتظم کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب بھی ہیں۔ انہوں نے اب تک باکسنگ اور دیگر موضوعات پر 11 کتابیں لکھیں ہیں جن میں ان کی آپ بیتی” مجھے ہے حکم اذاں“ بھی شامل ہے۔ باکسنگ کے قوانین اور کوچنگ کے موضوع پر انہوں نے اردو اور انگریزی میں 9 کتابیں تحریر کی ہیں جن کو انٹرنیشنل اور نیشنل باکسنگ سرکل میں سراہا گیا۔ میجر عبدالرشید نے لاہور میں اپنے باکسنگ کیرئیر کا آغاز کیا وہ ابتداء میں والٹر ویٹ کلاس کے باکسر تھے‘ اس زمانے میں انگریز باکسرز رنگ پر چھائے ہوئے تھے۔ میجر رشید نے لاہور وائی ایم سی اور برطانیہ کے پرائیویٹ کلبوں کے باکسروں کو سخت چیلنج کیا جبکہ اپنے یونٹ کی جانب سے برما انڈین سیریز میں بھی شرکت کی‘ اپنے حریف ا نگریز باکسروں کو ناک آﺅٹ کیا۔ اس دوران دوسری جنگ عظیم جب شروع ہوئی تو اپنے یونٹ کی جانب سے برما کے محاذ پر خدمات انجام دیں۔ 1947ءسے قبل کلکتہ کے مسلم کش فسادات میں وہ کلکتہ میں تھے۔ اس دوران انہوں نے مسلم آبادیوں کے تحفظ کے سلسلے میں مثالی خدمات انجام دیں۔ پاکستان باکسنگ فیڈریشن ریفری جج کمیشن کے چیئرمین اور میجر عبدالرشید کے نامور شاگرد علی اکبر شاہ نے میجر (ر) عبدالرشید کی خدمات پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میجر عبدالرشید کی باکسنگ خدمات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔