پاکستانی مائیں زمرد خاں جیسے بہادروں کو جنم دیتی ہیں
ایک، دو، تین چار، پانچ۔۔
موت کا فرشتہ حرکت میں آچکا تھا،وہی جانتا تھا کہ ا س نے کس کی جان لینی ہے،نہتے زمرد خاں کی یا اسکندر کی جس کے دونوں ہاتھوں میں خطرناک اسلحہ تھا اور جس کی انگلیاں ٹریگر پر سختی سے جمی تھیں۔
اسلام آباد ڈرامے کو پورے چھ گھنٹے گزر چکے تھے،گھڑی کی سوئیاں رات کے گیارہ بجے سے آگے سرک چکی تھیں۔ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ بیزاری اور اکتاہٹ کا اظہار کر رہے تھے،مگر کوئی بھی اسکرین سے نظریں ہٹانے کے لئے تیار نہ تھا۔
اچانک ایک تنو مند شخص کیمروں کے سامنے نمودار ہوا۔ اس کے سامنے اسکندر ، اس کی اہلیہ، بچی اور بیٹا کھڑے تھے۔تنو مند شخص نے اپنا ہاتھ سینے پر رکھا جیسے کہہ رہا ہو، میں آپ کا بھائی ہوں، بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا ہو گا کہ یہ میرے بھی بچے ہیں۔ ناظرین اس وقت تک پہچان چکے تھے کہ تنو مند شخص زمرد خاں تھا جو سابقہ دور میں بیت المال کا چیئرمین تھا۔نصف شب کے عالم میں وہ بھی اپنے گھر پر ٹی وی اسکرین کے سامنے گھنٹوں سے بیٹھا ہوا تھا، اس کے اعصاب تنے ہوئے تھے، اسے احساس ہوا کہ دارالحکومت ہی نہیں،پوار ملک تماشہ بنا ہوا ہے، ساری دنیا میں پاکستان کاامیج خراب ہو رہا ہے،زمرد خاں کی نظریں بار بار ان دو معصوم بچوں پر مرکوز رہیں جو گن مین کی وجہ سے دو طرفہ خطرے میں مبتلا تھے۔
دلیری ایک ایسا احساس ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی انسان میں ٹھاٹھیں مارنے لگ جاتاہے۔زمرد خاں یہ سوچ کر گھر سے نکلا کہ وہ ہر قیمت پر معصوم نونہالوں کوبچائے گا۔
زمرد خان ایک الگ طبع کا آدمی ہے، اس نے عدلیہ تحریک میں ایک بہادر اور دلیر چیف جسٹس آف پاکستان کا ڈرائیور بننے کی سعادت حاصل کی، لیاقت باغ کے جلسے میں وہ اسٹیج پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے بائیں ہاتھ تن کر کھڑا تھا ۔میں اسے پی پی پی کاایک معمول کا جیالا سمجھتا رہا، وہ بیت المال کا چیئر مین بنا تو مجھے یہی لگا کہ کسی جیالے کو یہ عہدہ سونپ دیا گیا ہے،اسنے یتیموں اور بیواﺅں کی کفالت کا پروگرام دیا اور سویٹ ہوم تشکیل دیا تو بھی مجھے اس میں کوئی خاص بات نظر نہ آئی ، ہر کوئی ذاتی تشہیر کے لئے نیکیوں کا چرچا کرتا ہے مگر لاہور میں مجھے عبدالعلیم خان نے اپنے فاﺅنڈیشن کے تحت چلنے والے ادارے خود دکھائے تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہر کام تشہیر کے لئے نہیں ، سچے جذبات ، لگن اور خلوص سے کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر لاہور کینٹ کے مہنگے تریں علاقے میں اس نے ایک شام کے دھندلکے میں مجھے یتیم اور غریب بچوں کے لئے قائم کردہ، دو ہوسٹل دکھائے جس کے ہر کمرے میں اے سی نصب تھے، صاف ستھرے بستر میسر تھے اور بچے ، بچیوں کو اسکول لانے لے جانے کے لئے نئی بسیں دروازے پر کھڑی تھیں، معذروں کے ایک اسکول میںاس نے ایک بلاک تعمیر کیا اور شوکت خانم میں بھی ایک بلاک کی تعمیر میں دو کروڑ کا حصہ ڈالا۔تب میری سوچ بدلی کہ پیسے والا آدمی بھی نیکی کر سکتا ہے اور یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے سوچا کہ اسلام آباد میں زمرد خاں نامی پکا پیپلیا بھی نیکی اور بھلائی کی مجسم تصویر ہو سکتا ہے۔لیکن میں اس سے آج تک نہیں مل سکا اور شاید مستقبل میں بھی نہ مل پاﺅں۔ پوری قوم اس کی فیس بک پر اس کو سلام پیش کر رہی ہے۔
گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کر رہی تھیں ، میں نے موبائل فون پر سٹاپ واچ آن کر دی۔زمرد خان بڑے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھا، اس نے دل چیر کر اپنے خلوص کی جھلک دکھائی، ماں کے قریب کھڑی چھوٹی بچی سے ہاتھ ملایا، پھربچے کی طرف ہاتھ بڑھایا جو اپنے باپ کے قریب کھڑا تھا۔یکا یک اس نے اپناہاتھ پیچھے ہٹا لیا اور دائیں طرف مڑتے ہوئے چیتے کی جست کے ساتھ گن مین کی طرف لپکا۔
یہی وہ پانچواں سیکنڈ تھا جس نے ایک عام پیپلئے زمرد خان کو پوری قوم کا ہیرو بنا دیا۔
زمرد خان اپنے ہی بوجھ سے نیچے گر چکا تھا، مگر اس نے رینگتے ہوئے گن میں کی ٹانگ دبوچنے کی کوشش کی، گن مین تو جناتی طاقت کا مجسمہ تھا، وہ الٹے پاﺅں پیچھے ہٹا، اور اندھا دھند فائر کرنے لگا، زمرد خاں ابھی زمین پر تھااور یہی اس کی خوس قسمتی تھی، فائر اس کے اوپر سے گزر گئے، اتنی دیر میں گن مین پر چاروں طرف سے فائر کھول دیا گیا، وہ چت گر پڑا ، زمرد خاں کو کوئی اور فکر نہ تھی ، اس نے دونوں بچوں کو کور کیا اور بحفاظت وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا، چھوٹی بچی کو اس نے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا اور ایک الوہی خوشی اس کے ہونٹوں پر رقصاں تھی۔
1956میںنہر سویز پر قبضہ جمانے کے لئے برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے چھاتہ بردار فوج اتار دی۔مصر کے مرد آہن جمال عبدالناصر نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان چھاتہ برداروں کا ڈنڈوں سے بھرکس نکال دیں ، مصری خواتین نے کپڑے دھونے اور مرچیں کوٹنے والے ڈنڈے لے کر ان چھاتہ برداروں کی دھنائی کر دی تھی۔
1965 میں بھارت نے ساری دنیا کے سامنے دعوی کیا کہ وہ لاہور پر قابض ہو چکا ہے، اس ناپاک مقصد کی تکمیل کے لئے اس نے لاہور میں چھاتہ برادر اتار دیئے۔ ریڈیو سے نظام الدین نے عوام کو پکارا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور ان گھس بیٹھیوں کا کچومر نکال دیں ،زندہ دلان لاہورنے لاٹھیوں سے میانی صاحب میں ملنگوں کو چھاتہ برادر سمجھ کر پیٹ ڈالا۔کچھ لوگوں نے دریاے راوی کے کنارے چلہ کاٹنے والوں کی مرمت کر ڈالی۔
رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اسلام ا ٓباد میں ڈرامہ ہوا، زمرد خاں نے جرات نہیں ، حماقت کا مظاہرہ کیا۔وہ ٹھیک کہتے ہیں ۔وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثارکے تحت ملک کا ایک ہی شہر آتا ہے اور وہ ہے اسلام آباد، انہوںنے اس ڈرامے میں اپنا وقت ضائع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
رانا ثناا للہ کی طرح ملک کی آدھی آبادی کا خیال ہے کہ ایبٹ آباد میں بھی ڈرامہ رچایا گیا، وہاں اسامہ نام کو کوئی شخص نہیں تھا۔شاید کوئٹہ ، کراچی، گلگت،نانگا پربت، قائد ریذیڈنسی اور شہر شہر ڈرامے ہی ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم سے لے کر راناثنا اللہ تک سبھی حکومتی اہل کاران ڈراموں سے لا تعلق ہیں ۔وزیر داخلہ تو جمعہ کی صبح قومی اسمبلی میں بھی نہ گئے۔
مگر زمرد خاں کی حماقت نے قوم کو ایک نئی راہ دکھائی ہے کہ ڈرنے، دبکنے، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ،جہاں ضرورت ہو ، دہشت گردوں پر پل پڑو۔ مفتی سرفراز نعیمی شہید نے بھی یہی شمع روشن کی تھی، ایک ہی روز پہلے جنر ل کیانی نے یوم آزادی کی تقریب میں صحیح کہا تھا کہ ایسی بہادر قوم کے سامنے دہشت گردوں کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
اورقوم کی مائیں جب تک زمرد خان جیسے بچوں کو جنم دیتی رہیں گی، دلیری، مردانگی، شجاعت کی لازوال مثالیں سامنے آتی رہیں گی۔آتش نمرود میں عشق بے خطر ہو کر کودتا رہے گا۔