سزائے موت کا قانون تبدیل نہیں کیا‘ صدر وزیراعظم ملاقات میں حتمی فیصلہ ہو گا: ترجمان وزیراعظم ہاﺅس
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+اے ایف پی+نوائے وقت نیوز+ نیٹ نیوز) وزیراعظم ہاﺅس کے ترجمان نے کہا ہے کہ سزائے موت کے قانون میں ابھی کوئی تبدیلی کی گئی ہے نہ ہی قانون میں تبدیلی سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔ صدر مملکت غیر ملکی دورے پر ہیں اس معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی تاہم آئندہ چند روز میں صدر اور وزیراعظم کی ملاقات متوقع ہے جس میں اس معاملے پر بات ہوگی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سزائے موت کے فیصلے پر عملدرآمد صدر آصف علی زرداری کی وزیراعظم سے ملاقات تک معطل کیا گیا ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے لئے خط لکھا تھا کہ وہ سزائے موت کے معاملہ پر بات کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ملاقات میں پچھلے کئی ماہ سے زیر التوا کیسز کے بارے میں حتمی فیصلہ کر دیا جائے گا۔ ترجمان وزیر اعظم ہاﺅس نے سزائے موت پر عمل درآمد روکنے بارے میڈیا رپورٹس کی وضاحت کرتے ہوئے بیان میں کہا کہ سزائے موت کے قانون میں ابھی کوئی تبدیلی کی گئی نہ ہی ابھی تک تبدیلی سے متعلق کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ صدر زرداری کے غیر ملکی دورے سے واپسی پر آئندہ پندرہ روز میں صدر اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے درمیان ملاقات متوقع ہے۔ صدر اور وزیراعظم کے درمیان ملاقات میں سزائے موت کے قانون میں تبدیلی سے متعلق معاملے پر بات چیت ہوگی اس کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ اے ایف پی کے مطابق ترجمان وزیراعظم نے کہا ہے کہ عملدرآمد صدر آصف علی زرداری کی آمد تک مﺅخر کیا گیا ہے ان کے ملک میں واپس آنے پر اس حوالے سے بات ہوگی۔ صدر زرداری کی خواہش پر ان کی آمد تک سزائے موت کے تمام فیصلوں پر عملدرآمد مﺅخر رہے گا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم صدر سے پھانسیوں کے متعلق مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ دہشتگردی میں ملوث مجرموں کو رعایت نہ دی جائے، دہشتگرد ہو یا تخریب کار، مجرم کو ہر صورت سزا ملے گی، پھانسی کی سزاﺅں پر عملدرآمد صدر کی درخواست پر م¶خر کیا، پھانسی کی سزاﺅں پر عملدرآمد سے متعلق صدر مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ سزاﺅں پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی دباﺅ برداشت کیا جائیگا نہ ہی کسی کی دھمکیوں میں آئیں گے۔ واضح رہے صدر نے 15 اگست کو وزیراعظم کو سزاﺅں پر عملدرآمد مﺅخر کرنے کے لئے خط لکھا تھا۔ نجی ٹی وی کے ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے سزائے موت کے 20 سے زائد کیسز صدر کو ارسال کئے ہیں تاہم صدر کو اختیار ہے کہ وہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ این این آئی کے دعویٰ کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے ایوان صدر کو بھیجے گئے مراسلے میں واضح کر دیا ہے کہ مجرموں کو دی گئی سزاﺅں پر ہرصورت عملدرآمد ہوگا اس سلسلے میں دباﺅ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم ہاﺅس کی جانب سے ایوان صدر کو بھیجے گئے جوابی مراسلے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث مجرموں کو کسی صورت رعایت نہ دی جائے۔ مجرموں کو ملنے والی سزاﺅں پر عملدرآمد نہ ہونے سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ اس لئے دہشتگرد ہو یا کالعدم تنظیم کا تخریب کار ہر مجرم کو اس کے کئے کی سزا ہر صورت ملے گی۔ حکومت کسی کی دھمکیوں میں آئے گی اور نہ ہی کسی بھی قسم کا دباﺅ قبول کیا جائے گا۔ صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صدر آصف علی زرداری کو سزائے موت کے دو مجرموں کی جانب سے رحم کی اپیلیں موصول ہوئی تھیں آئین کے تحت صدر خود ہی سزائیں مو¿خر نہیں کر سکتے۔ صدر نے ان اپیلوں کو حکومت کے پاس بھیجا اور وزیراعظم نواز شریف سے اس معاملے پر گفتگو کے لیے کہا ہے جس کے بعد حکومت نے صدر کی وطن واپسی تک یہ سزائیں مو¿خر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی صدر دو بار وزیرِاعظم کو اس حوالے سے ملاقات کے لیے کہہ چکے ہیں تاہم وزیرِاعظم ہاو¿س سے خطوط کا کوئی جواب نہیں آیا۔ صدارتی ترجمان کا کہنا تھا کہ گذشتہ حکومت میں پی پی پی کی کوشش تھی کہ اگر سزائے موت ختم نہیں کی جا سکی تو کم از کم ایسے جرائم کی تعداد میں کمی کی جائے جن میں قانون کے تحت سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک جمہوری حکومت ہے جو آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے اور کسی دہشت گرد یا تنظیم سے خوفزدہ نہیں ہو گی۔ پرویز ملک نے کہا کہ ’ہم آئین کے مطابق معاملات کو چلانے کی کوشش کریں گے جو وقت کا قانون ہے اس کے مطابق چلیں گے۔ بعض خدشات نے اس لیے جنم لیا کیونکہ بہت سی رحم کی اپیلیں صدر آصف علی زرداری کے پاس پڑی ہیں جن پر انہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ جن میں دہشت گرد بھی شامل ہیں ان کی پھانسی کی سزاو¿ں پر عملدرآمد رکا ہوا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت ان سزاو¿ں پر عملدرآمد کا ارادہ رکھتی ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمیشہ کے لیے تو ان سزاو¿ں پر عمل درآمد کو نہیں روک سکتے۔کچھ قانونی سقم تھے جن کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی اور یہ ایک مسئلہ ہے جس کے بارے میں فیصلہ ہونا باقی ہے‘۔ جب ان سے طالبان کی جانب سے دھمکیوں کے حوالے سے پوچھا گیا کہ کیا ان دھمکیوں کی وجہ سے تو سزاﺅں پر عملدرآمد موخر نہیں کیا جا رہا تو ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کسی گروہ سے بلیک میل تو نہیں ہوتی، قانون چلتا رہتا ہے اسے چلنا چاہیے‘۔’جو کارروائی چل رہی تھی وہ سب رک گئی تھی اس کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے بات ہوئی کہ اسے دوبارہ دیکھا جائے اور کس طرح اس کی روٹین ٹھیک کی جائے اور اس میں کیا حدود ہونی چاہئیں۔ ایوان صدر بھی اگر کسی کو معافی دیتا ہے تو وہ حالات کو دیکھ کر معافی دے گا۔ اگر عدالتوں کے فیصلے پر ایوانِ صدر میں پانچ پانچ سال تک فیصلہ نہ ہو سکے تو یہ کوئی گڈ گورننس نہ ہوئی۔ گ±ڈ گورننس تو یہ ہے کہ مثبت یا منفی جو بھی فیصلہ ہے وہ کیا جائے۔‘اس سے پہلے وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ بین الاقوامی دباو¿ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے احتجاج کے باوجود سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد کرے گی۔ یاد رہے کہ صدر آصف علی زرداری نے منتخب ہونے کے بعد سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ ان کے اس فیصلے پر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق دور حکومت نے سزائے موت کے قانون کو ختم کر کے ا±سے عمر قید میں تبدیل کرنے سے متعلق قانون سازی کے لیے کچھ اقدامات تو کئے اسے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔