چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی‘ آرمی چیف کی تقرری ‘ کیا وزیراعظم سنیارٹی پر عمل کریں گے
لاہور (اشرف ممتاز / دی نیشن رپورٹ) چیئرمین جائنٹ چیفٹس آف سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں 6 اکتوبر، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی 28 نومبر کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں اور وزیراعظم آئندہ دنوں میں انکی جگہ تقرری کر دینگے۔ اگر وزیراعظم اپنے وعدوں پر قائم رہے تو سنیارٹی کو ملحوظ خاطر رکھا جائیگا تاہم اگر انہوں نے صوابدیدی اختیارات استعمال کئے اور کسی کی وفاداری کو وزن دیا تو وہ کسی جونیئر لیفٹننٹ جنرل کو بھی ان عہدوں کیلئے نامزد کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم اس سے قبل کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ماضی سے سبق سیکھا ہے اور سب سے سینئر جرنیل کو ہی آرمی چیف بنایا جائیگا۔ جنرل جہانگیر کرامت کی جبری ریٹائرمنٹ کے بعد 1998ءمیں سنیارٹی کو نظرانداز کرکے پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا تھا۔ اس وقت چودھری نثار علی خان ایسے لوگوں نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ اردو بولنے والے پرویز مشرف کی فوج میں جڑیں گہری نہیں اور وہ منتخب حکومت کیلئے خطرہ نہیں بنیں گے۔ چودھری نثار کا تعلق آرمی فیملی سے ہے اور وزیراعظم نواز شریف انکی رائے کو فوقیت دیتے رہے ہیں اور اس معاملے پر دوسری رائے لئے بغیر پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا۔ تاہم اسکے بعد پرویز مشرف زیادہ دیر تک اس رائے کیلئے خود کو ثابت نہ کرسکے اور نہ صرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کردی، بلکہ تمام شریف فیملی کو سات سال کیلئے سعودی عرب بھیج دیا۔ متعدد کیسوں میں مطلوب ہونے کے باعث پرویز مشرف اس وقت اپنی رہائشگاہ پر نظربند ہیں تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کیا وعدے کے مطابق انکے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی شروع ہوگی۔ نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں اور اپنے عہدے کی مدت پوری کرنا انکی خواہش ہے۔ اس کیلئے وہ مخالفین کی تنقید کی پرواہ کئے بغیر اپنے وفاداروں کو اہم پوزیشنوں پر تعینات کررہے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ فوجی عہدے کیلئے سنیارٹی کے اصولوں پر کاربند رہیں گے تاہم اگر وزیراعظم نے کسی جونیئر جرنیل کو آرمی چیف کیلئے چنا تو یہ نظام پر عدم اعتماد ہو گا۔ اگر کوئی سسٹم کے تحت سنیارٹی کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے تو اسکی صلاحیت پر اعتماد کرنا چاہئے۔ سنیارٹی لسٹ کے مطابق جنرل خالد شمیم وائیں اور جنرل کیانی کے بعد کمانڈر بارہویں کور لیفٹیننٹ جنرل محمد عالم خٹک سینئر ترین ہیں تاہم وہ ان پوسٹوں پر تعینات نہیں ہوسکیں گے کیونکہ وہ جنرل وائیں سے دو روز قبل 4 اکتوبر کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔ اسکے بعد چیف آف لاجسٹکس سٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمد ہارون اسلم اور چیف آف جنرل سٹاف لیفٹننٹ جنرل راشد محمود جنرل سینئر ترین جنرل ہیں جنہیں جنرل خالد وائیں یا جنرل کیانی کی جگہ تعینات کیا جا سکتا ہے تاہم دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں جرنیل 9 اپریل 2014 کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔ جنرل ہارون کو مختلف عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ ہے۔ وہ انفنٹری ڈویژن پاکستان رینجرز (پنجاب) ایلیٹ سروسز گروپ اور بہاولپور کور کےلئے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی فیکلٹی، وار ونگ میں ہیں، وہ پی اے ایف وار کالج میں لیکچررز بھی دے رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کور کمانڈر چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر رہے، وہ جی ایچ کیو میں آپریشنل اور انٹیلی جینس امور دیکھتے ہیں، وہ ایک بالکل اہل جنرل تصویر کئے جاتے ہیں۔ دیگر امیدواروں میں لیفٹننٹ جنرل راحیل شریف، آئی جی ٹریننگ اینڈ ایوالیوشن، لیفٹیننٹ جنرل طارق خان کمانڈر ونگ کور منگلا، لیفٹننٹ جنرل محمد ظہیر الاسلام ڈی جی آئی ایس آئی، لیفٹننٹ جنرل سلیم نواز کمانڈر 30کور گوجرانوالہ اور دیگر شامل ہیں، اس وقت جبکہ امریکہ افغانستان سے افواج بلا رہا ہے اور پاکستان اور بھارت میں سرحدی کشیدگی پائی جاتی ہے آرمی چیف اور چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کیلئے تقرری بہت اہمیت کی حامل ہوگی۔
اسلام آباد (رائٹرز+ ثناءنیوز) چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پروےز کیانی کی بطور ملکی افواج کے سربراہ ان کی دوسری مدت نومبر مےںختم ہو رہی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس بار وہ اپنے متبادل کو جگہ دیں گے۔ مغربی نشرےاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ملک کے چند سیاسی حلقوں میں ایسی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مزید تین برسوں کے لیے فوج کی کمان سونپی جا سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نومبر میں اپنی مدت کے خاتمے پر فوج کی قیادت کسی اور کو سونپ دیں گے۔ اس سلسلے میں سیاسی حلقے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں اور یہ دیکھنا اہم ہے کہ وزیر اعظم یہ ذمہ داری کسے سونپتے ہیں۔ 1947 میں آزادی ملنے کے بعد سے اب تک پاکستان نصف سے زیادہ عرصے مارشل لا کی زد میں رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، عام تاثر یہ ہے کہ جن ادوار میں سویلین حکومتیں برسر اقتدار رہیں، ان میں بھی مسلح افواج کا اثر و رسوخ کچھ کم نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی نئے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کا عمل کافی اہمیت کا حامل ہے۔رواں سال نومبر میں جنرل کیانی کو پاک فوج کی کمان سنبھالے ہوئے چھ برس مکمل ہو جائیں گے۔ بہت ممکن ہے کہ کیانی کا متبادل تلاش کرنا تیسری مرتبہ وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے والے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کے لیے اب تک کا سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ایک سینیئر ریٹائرڈ افسر نے بتایا بات صرف یہ نہیں ہے کہ نواز شریف کو اس عہدے پر ایک ایسا فوجی افسر چاہیے جس پر وہ اعتماد کر سکیں بلکہ انہیں ایک ایسا شخص بھی چاہیے ، جس کی مدد سے وہ ملک کی سیاست میں فوج کے عمل دخل یا اس کے اثر و رسوخ کو کم کر سکیں۔ اس افسر کے بقول آرمی کو بھی کسی ایسے شخص کی تلاش ہے، جو نواز شریف کے ساتھ کام کر سکے۔ لیکن ایسی صورتحال میں کہ جب 2014ءکے اختتام تک افغانستان سے بین الاقوامی افوج کا انخلا طے ہے اور روایتی حریف بھارت خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں کر رہا ہے، فوج ملکی معاملات پر اپنی گرفت کو کیسے کمزور کرے؟ یہ صورتحال اور لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی اس تناظر میں نواز شریف کو درپیش مشکلات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگرچہ نئے چیف آف آرمی سٹاف کے بارے میں کھلے عام قیاس آرائیاں نہیں کی جا رہی ہیں تاہم جیسے جیسے نومبر قریب آتا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں، سابق فوجیوں اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ نجی گفتگو میں چند نام سامنے آئے ہیں۔ چند سیاسی حلقوں میں ایسی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ جنرل کیانی کو مزید تین برسوں کے لیے فوج کی کمان سونپی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ عام طور پرکافی خاموش طبیعت کے مالک اشفاق پرویز کیانی کو پاکستانی سیاست کے خاموش جنرل کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ان کی طرف سے جمہوریت کے حق میں دیئے گئے چند بیانات کی وجہ سے انہیں نہ صرف پاکستان میں بلکہ مغربی دنیا کے سفارتی حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کئی حلقوں میں یہ مانا جاتا ہے کہ جنرل کیانی کے دور میں ملکی سیاست میں فوج کا عمل دخل مقابلتاً کم رہا ہے۔