صدر ہی سزائے موت پر عملدرآمد روک سکتا ہے: آئینی وقانونی ماہرین
لاہور(شہزادہ خالد) وزیراعظم کی جانب سے سزائے موت پر عملدرآمد رکوانے کے اختیارات کے حوالے سے آئینی وقانونی ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان کے قیام کے لئے اسلامی، آئینی و قانونی طور پر سزائے موت پر عملدرآمد ضروری ہے۔ جسٹس (ر) آفتاب فرخ نے کہا کہ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرتا ہے۔ صدر آصف زرداری نے 5 سال تک سزائے موت پر عملدرآمد روکے رکھا اب جاتے جاتے وہ نئی حکومت کے گلے میں سیاسی پھندا ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر صدر ہی سزائے موت پر عملدرآمد روک سکتا ہے یا حکم جاری کر سکتا ہے، وزیراعظم ایگزیکٹو آرڈر سے سزائے موت پر عملدرآمد نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی قوتوں کو پاکستان میں انسانی حقوق بڑے نظر آتے ہیں لیکن عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والا ظلم، مصر کے معصوم عوام پر ٹینک چڑھا دئیے گئے وہ انہیں نظر نہیں آتے، پاکستان میں سزائے موت کا قانون ان سے ہضم نہیں ہو رہا۔ جسٹس (ر) خواجہ شریف نے کہا کہ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم جو چاہتا ہے وہی کر سکتا ہے۔ صدر نے 5 برس تک سزائے موت پر عملدرآمد روکے رکھا جو غلط تھا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر میاں اسرار الحق نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد ہونا چاہیئے۔ آئین میں ترمیم کے بغیر وزیر اعظم کو اختیار نہیں کہ وہ سزائے موت پر عملدرآمد رکوائے۔ اس وقت آئین کے مطابق سزائے موت پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ اسی طرح امن و امان کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ بار کے جنرل سیکرٹری جاوید اقبال راجہ نے کہا کہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر حکم جاری کرے تو بعد میں وزیر اعظم اسے نہیں روک سکتا اگر وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بغیر صدر حکم جاری کرتا ہے تو وزیر اعظم کو اختیار ہے کہ وہ اسے روک دے۔ سینئر وکیل سید رئیس الدین نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا اختیار صدر کے پاس ہے وزیر اعظم کے پاس نہیں۔ لاہور بار کی صدارت کے امید وار چودھری ولایت ایڈووکیٹ نے کہا کہ انٹرنیشنل این جی اوز جن کی پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے کا دبائو ہے کہ وزیر اعظم سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کر دیں۔ مشفق خان ایڈووکیٹ، عارف ملہی ایڈووکیٹ، ندیم بٹ ایڈووکیٹ نے کہا کہ جرائم کے کنٹرول کے لئے سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد ضروری ہے۔