بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کو براہِ راست جنگ کی دھمکی اور ہمارے حکمرانوں کی بیک چینل ڈپلومیسی....واہ مہاراج! اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کو براہِ راست جنگ کی دھمکی اور ہمارے حکمرانوں کی بیک چینل ڈپلومیسی....واہ مہاراج! اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ وہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیاں فوری طور پر بند کر دے ورنہ بھارتی فوج کو جوابی کارروائی پر مجبور ہونا پڑے گا۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنرل بکرم نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ دھمکی بھی دی کہ اگر پڑوسی ملک نے جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو اسے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کی جانب سے سیز فائر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور حالات جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے بقول ماضی میں بھی پاکستان نے زبردستی جنگ تھوپی تھی جس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں کہ پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اگر آئندہ بھی پڑوسی ملک نے اس غلطی کو دہرایا تو نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت پاکستان سمیت کسی بھی ملک سے جنگ کا خواہاں نہیں تاہم سیاسی قیادت اور عوام نے اجازت دے دی ہے کہ اگر کسی نے ہماری ملکی سالمیت اور خود مختاری پر حملہ کیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی افواج کے سربراہ نے لائن آف کنٹرول پر تعینات تمام فورسز کو ہدایت کی کہ سرحدوں کی حفاظت کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا جائے۔
بھارت میں بالعموم کوئی جرنیل سیاسی بیان دیتا ہے نہ وہاں کی افواج حکومتی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کرتی ہیں۔ بھارتی آرمی چیف کے بیان میں براہ راست پاکستان کو جنگ کی دھمکی دی گئی ہے اور اعتراف بھی کیا ہے کہ یہ بیان بھارتی حکمرانوں کی آشیرباد سے دیا گیا ہے توجنرل بکرم نے کھل کر واضح کیا ہے کہ بھارتی افواج کے جنگی جنون کو سیاسی قیادت اور عوام کی پذیرائی حاصل ہے۔ ان کے اس قطعی شرانگیز اور اشتعال انگیز بیان کے بعد تو پاکستان کے خلاف بھارتی ”امن کی آشا“ کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی جبکہ بھارت کے حکومتی اور اپوزیشن سیاستدان اپنی آئندہ کی انتخابی حکمت عملی کے تحت اپنے جارحانہ بیانات اور اقدامات کے ذریعے پہلے ہی جنگ کی فضا بنا چکے ہیں اورکوئی تیر اور نشتر ایسا نہیں جو ان کی جانب سے پاکستان پرچلانے اور برسانے سے گریز کیا گیا ہو۔
پاکستان کے خلاف بھارت کی ”بغل میں چُھری، منہ میں رام رام “والی پالیسی شروع دن سے چل رہی ہے جو ہم پر خود جنگیں بھی مسلط کر چکا ہے، سرحدی خلاف ورزیوں کا بھی مسلسل مرتکب ہو رہا ہے، خود کو ایٹمی قوت بنا کر ہر قسم کے جدید ایٹمی اور روایتی جنگی ہتھیاروں کے بھی ہماری سالمیت کے خلاف ڈھیر لگا چکا ہے، کشمیر پر فوجی تسلط کے ذریعے شروع دن سے قابض ہو کر اس نے اب تک تقسیم ہند کے ایجنڈہ کے مطابق پاکستان کے وجود کی تکمیل بھی نہیں ہونے دی اور اس کے برعکس سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں ہمارا ایک بازو کاٹ بھی چکا ہے اور اب اسے باقی ماندہ پاکستان کا آزاد اور خود مختار وجود بھی برداشت نہیں ۔ بھارتی سیاستدانوں کے پاس بھوکے ننگے عوام کیلئے کوئی پالیسی ہے نہ کوئی پلان۔ بی جے پی اور دیگر جماعتوں کی منصوبہ بندی یہی ہے کہ بھارتیوں کو پاکستان کے خلاف تعصب پر متحد کیا جائے ، چاہے بیان بازی سے نوبت جنگ تک آپہنچے۔ اگر بھارت کی جانب سے کشمیری عوام کی امنگوں کی پاسداری کرتے ہوئے تشکیل پاکستان کے ساتھ ہی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو قبول کر لیا گیا ہوتا اور پھر اپنی ہی درخواست پر منظور ہونے والی یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنا کر کشمیر میں رائے شماری کرا لی گئی ہوتی جس کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل ہو چکا ہوتا تو پھر ان دونوں پڑوسی ممالک کے مابین کوئی وجہ¿ تنازعہ بھی موجود نہ رہتی اور دونوں نے اب تک اپنی جتنی توانائیاں اور وسائل ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے استعمال کئے ہیں وہ اپنے اپنے ملک اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے بروئے کار لا کر اس خطے کو امن و استحکام کا گہوارا بنایا جا چکا ہوتا۔
اس کے برعکس اگر آج تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکا اور دونوں ممالک کی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی اقوام عالم کیلئے بھی امن و سلامتی کے حوالے سے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے تو جنرل بکرم سنگھ اور ان کے سرپرست بھارتی لیڈروں کو باسی کڑھی کے اُبال لینے کے بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہئے کہ اس علاقائی کشیدگی کا محرک کون ہے۔ اگر آپ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے والی ہٹ دھرمی برقرار رکھیں گے، پاکستان کی سالمیت کے خلاف مستقل طور پر سازشوں میں مصروف رہیں گے، اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے، کشمیر کے تذکرہ پر ہر سطح کے مذاکرات کی میز الٹاتے رہیں گے، اپنے قبضہ میں کئے ہوئے پاکستان کے پانیوں کو اپنے مقاصد کے تحت کبھی پاکستان کو ریگستان بنانے اور کبھی سیلابی پانی میں ڈبونے کیلئے استعمال کریں گے اور پاکستان کی دوستی اور تجارت کی ہر پیشکش کو رعونت اور حقارت کے ساتھ ٹھکرا کر سرد مہری اور سرحدی کشیدگی کو ہَوا دیں گے تو پھر آپ پر جواباً پھولوں کی برسات تو نہیں ہوگی۔یہ ساری ہذیانی جنگی کیفیت تو آپ کی اپنی پیدا کردہ ہے مہاراج ۔
ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ دسمبر سے اب تک بھارت کی جانب سے سیز فائر لائن کی دو سو بار خلاف ورزی کی جا چکی ہے اور اس عرصے کے دوران پاکستان کی چیک پوسٹوں اور رینجرز پر بلا اشتعال فائرنگ کا تسلسل بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ گذشتہ روز بھی بھارتی فوج نے نکیال سیکٹر پر بلا اشتعال فائرنگ کی جس سے دو افراد زخمی ہو گئے جبکہ مون سون کی حالیہ بارشوں سے فائدہ اٹھا کر بھارتی ڈیمز کے پونڈز میں جمع ہونے والا ساراپانی بھی پاکستان کی جانب چھوڑ دیا گیا ہے جس سے دریائے سندھ، راوی، چناب اور ستلج میں بھی پانی بے قابو ہو کر سیلابی ریلوں کی شکل میں وسطی اور جنوبی پنجاب میں تباہی و بربادی لا رہا ہے اور گذشتہ روز کے سیلاب سے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں، کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، فیکٹریوں اور دیگر کاروباری مراکز میں پانی داخل میں ہو چکا ہے اور مزید 22 افراد کی زندگیاں اس سیلاب کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ایک جانب تو بھارتی سازشوں کے تحت پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے اور دوسری جانب بھارت نے سرحدی کشیدگی انتہا کو پہنچا کر پاکستان کی سالمیت کو مستقل خطرے میں ڈال رکھا ہے جبکہ بھارت اب کھلے عام جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے، جنرل بکرم سنگھ کا بیان اس کا بین ثبوت ہے۔ قبل ازیں بھارتی اپوزیشن بی جے پی کے لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات اور ان کے آگے حکومتی پسپائی اور ساتھ ہی ساتھ بھارتی میڈیا کی پیدا کردہ پاکستان مخالف اشتعال انگیز فضا میں بھارتی کانگرس اور بی جے پی کے یوتھ ونگز کے علاوہ متعدد انتہا پسند گروہ پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز مظاہروں میں مصروف رہے ہیں اس دوران دوستی بس پر حملہ کیا گیا، پاکستان کے ہائی کمشن آفس میں توڑ پھوڑ کی گئی، بھارت جانے والی پی آئی اے کی پروازوں کی لینڈنگ پر پاکستان کے خلاف مظاہرے کئے گئے جبکہ گذشتہ روز احمد آباد میں جنوبی ہندوﺅں نے پاکستانی آرٹسٹوں کے فن پاروں کی نمائش پر دھاوا بول دیا اور توڑ پھوڑ کی۔ بکرم سنگھ کو پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیان جاری کرتے ہوئے عقل کے ناخن لینے چاہئیں اور یہ سوچنا چاہئے کہ سرحدی کشیدگی کو پھیلا کر جنگ کا ماحول کس نے بنایا ہے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کی زیر صدارت حکومت کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں نواز، منموہن ملاقات کو یقینی بنانے اور بھارت کا انتہا کو پہنچایا گیا ٹمپریچر اپنی عاجزی کی بنیاد پر کم کرنے کی حکمت عملی طے کر کے بیک چینل ڈپلومیسی کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت وزیراعظم کے معاون خصوصی شہریار خان کو بھارتی وزیراعظم کے خصوصی ایلچی ایس کے لامبا سے ملاقات کر کے امن عمل کے معاملہ کو درست کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، لیکن اگر ازلی دشمن بھارت ہم پر جنگ مسلط کرنے اور ہماری سالمیت کو پارہ پارہ کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے تو اسے ہماری جانب سے عاجزی کے ساتھ پھول بھجوانا اور دوستی کی توقعات باندھنا ملکی سلامتی کو ہاتھ پاﺅں باندھ کر اس کے سامنے ڈالنے کے مترادف ہو گا۔پھولوں کی مالا پہنانے کے بعد گالیاں کھانے کی بجائے بھارت کے وزیراعظم کو اپنے آرمی چیف کے منہ کو تالا لگا کر سفارتکاری پر انحصار کرنا ہوگا ورنہ بھارتی آرمی چیف کی بھڑکائی ہوئی آگ مہاراج کو خود ہی نہ بھون بیٹھے۔