وزیراعظم کا خطاب حقیقت پر مبنی ہے‘ لیگی رہنما ۔۔۔ عوام کو مایوسی ہوئی‘ اپوزیشن
لاہور (خصوصی رپورٹر + سپیشل رپورٹر + خصوصی نامہ نگار) وزیراعظم محمد نوازشریف کے قوم سے پہلے خطاب پر دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں نے وزیراعظم کے خطاب کو حقیقت پر مبنی قرار دیا جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی تقریر سے عوام کو شدید مایوسی ہوئی، حکومت لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے میں ناکام ہوگئی۔ سینٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف کا خطاب قومی ایجنڈے کی تکمیل کی جانب سنگِ میل ثابت ہو گا۔ وزیراعظم نے جامع انداز میں حکومتی ترجیحات کا تعین کردیا۔ ثابت ہوگیا کہ نوازشریف دعوؤں پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ توانائی بحران کے خاتمے، دہشت گردی سے نجات اور معاشی استحکام کے نتیجے میں خوددار، خودمختار اور خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ وزیراعظم نوازشریف عوام سے کئے گئے ایک ایک وعدے کو پورا کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں خواجہ محمود احمد، صوبائی وزرا رانا ثنا اللہ خان، خلیل طاہر سندھو، میاں مجتبی شجاع الرحمن اور راجہ شاہجہان نے وزیراعظم نوازشریف کی تقریر کو حقیقت پر مبنی قرار دیا۔ مسلم لیگ فنکشنل کے مرکزی سینئر نائب صدر سلطان محمود خان نے وزیراعظم نوازشریف کے قوم سے خطاب کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ملک کو درپیش مسائل بھی بیان کئے گئے، انکے حل کا خاکہ پیش کیا گیا۔ تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز احمد چودھری، جنرل سیکرٹری پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد اور سیکرٹری انفارمیشن عندلیب عباس نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیکر قوم سخت مایوس ہوچکی ہے، وزیراعظم نے اپنے خطاب کے ذریعے ووٹرز کو دوبارہ نیا دھوکا دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ وزیراعظم کا ضمنی الیکشن سے چند روز پہلے قوم سے خطاب انتخابات سے قبل دھاندلی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے قوم سے خطاب میں جھوٹی تسلیوں اور نعروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پانچ سال پنجاب میں رہی اور اب پنجاب میں دوبارہ حکومت کر رہے ہیں لیکن متوسط طبقے کیلئے ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا۔ آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین کی بحالی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہمارے نزدیک مذاکرات ہی بہترین راستہ ہے، وزیراعظم کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہیں، خطاب قابل تائید ہے۔ خطہ میں جنگ نہیں مذاکرات ہی بہترین راستہ ہے ہمیں ہمسائیوں سے ٹھوس بنیاد پر مذاکرات کرنے چاہئیں۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا وزیراعظم نوازشریف کا خطاب دردمند اور سنجیدہ حکمران کی عکاسی کرتا ہے۔ جماعت اہلحدیث کے امیر حافظ عبدالغفار روپڑی نے کہا وزیراعظم نے اپنے خطاب میں دعوؤں پر نہیں بلکہ عملی اقدامات کا اظہار کیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفاری حیدری اور مرکزی ترجمان مولانا امجد خان نے کہا وزیراعظم نے مسائل کا ذکر تو کیا یقیناً ملک مسائل کی دلدل میں پھنسا ہے لیکن قوم بار بار مسائل کی نشاندہی نہیں بلکہ ان کا حل چاہتی ہے، بار بار مسائل کا رونا رونے کی بجائے اس حل کی طرف بڑھنا ہو گا، حیرانگی اس بات پر ہے کہ بجلی بحران کا ذکر کیا گیا لیکن اس سے پہلے قوم کو بجلی کے نرخوں میں اضافہ کا زبردست جھٹکا دیا گیا، حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ان کے خطاب کے دوران یہ چاند کیسے چڑھا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری لیاقت بلوچ نے کہا وزیراعظم نے صرف اپنے خطاب میں قوم سے صرف نیک تمنائوں اور خواہشات کا اظہار کیا ہے، عوام کا تقاریر سے پیٹ نہیں معاشی مسائل کے حل سے پیٹ بھرے گا۔ امیر جماعت اسلامی لاہور میاں مقصود احمد نے وزیر اعظم نوازشریف کے قوم سے اپنے پہلے خطاب کو مایوس کن قرار دیا اور کہا کہ نوازشریف نے وہی باتیں کیں جو پرویز مشرف اور آصف زرداری کیا کرتے تھے عملی طور پر کچھ نہیں کرتے تھے۔ امیر جماعت اسلامی منور حسن نے کہا وزیراعظم نے پوری قوم کو خوابوں اور خیالوں کی د نیا میں الجھائے رکھا، قوم کے سامنے پائیدار حکومتی پالیسی نہیں رکھی، حکومت کی طرف سے دہشت گردی، بجلی بحران، بیروزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے ارادے کا اظہار کیا گیا مگر کوئی فریم ورک نہیں دیا۔ بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے سدباب کی بات نہیں کی گئی، بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دینا چاہئے۔ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ بھی قرار دینا اور جس خونخوار بھیڑئیے نے اس شہ رگ کو دبوچ رکھا ہے اس سے ہمدردی کا اظہار دو متضاد چیزیں ہیں۔ قوم نے انہیں بھارت کی بالادستی قبول کرنے کا مینڈیٹ نہیں دیا۔ ڈرون حملوں کی ملکی خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کے خلاف قرار دینے کے باوجود ڈرون حملے روکنے کی کوئی واضح حکمت عملی نہ دینا حکومتی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جرأت مندانہ موقف کا اظہار نہیں کیا گیا بلکہ جان کیری کی منت سماجت کرنے کا شرمناک رونا رویا گیا۔ طالبان سے مذاکرات کی بات تو کی گئی مگر کوئی پالیسی گائیڈ لائن نہیں دی۔ مصر اور بنگلہ دیش میں جاری ظلم و جبر اور قتل عام پر قوم کو پاکستان کا مؤقف واضح نہیں کیا گیا۔ 250 ارب روپے کی سالانہ بجلی چوری ہو رہی ہے تو حکمران کہاں سوئے ہوئے ہیں؟ حکومت میں بیٹھے ہوئے ایم این ایز، ایم پی ایز اور اعلیٰ افسران بجلی و گیس کی چوری میں ملوث ہیں لیکن حکومت نے ان کو اپنی صفوں میں پناہ دے رکھی ہے۔ نوازشریف کو چاہئے تھا کہ وہ قوم کو بتاتے کہ حکومت نے اب تک کتنے بجلی چور پکڑے ہیں اور ان کا تعلق کس جماعت سے ہے۔ وزیراعظم کو چاہئے تھا کہ بلوچستان میں جاری کشت و خون کو روکنے کیلئے اپنی حکومت کے اڑھائی ماہ کے اقدامات سے قوم کو آگاہ کرتے، نوجوانوں اور خواتین کی ترقی کیلئے خیالی پلاؤ پکایا گیا۔ جمعیت علمائے اسلامی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وزیراعظم میاں نوازشریف کے طاقت کے استعمال سے دہشت گردی میں کمی نہیں اضافہ ہو گا، اگر مسلمل لیگ (ن) کی حکومت اقتدار میں آتے ہی مذاکرات کا عمل شروع کر دیتی تو آج ملک میں صورتحال مختلف ہوتی مگر اب بھی دیر نہیں ہوئی جلد از جلد طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ (ق) لیگ پنجاب نے وزیراعظم کے خطاب پر کہا ہے کہ وزیراعظم عوام پر بجلی گیس کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ مسلط کر کے اور ظالمانہ ٹیکسیشن کے ذریعے ملک کی بنیادیں مضبوط نہیں کر رہے بلکہ عوام کی چولیں ہلا رہے ہیں۔ سیکرٹری اطلاعات سیمل کامران نے کہا کہ وزیراعظم کے خطاب سے سخت مایوسی ہوئی عوام توقع کر رہے تھے کہ وہ عوام کو کوئی ریلیف دینگے۔ پرانی اور گھسی پٹی باتیں کر کے وقت ضائع کیا۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ کوئی حکومت لوڈ شیڈنگ فوری ختم کرنے کا وعدہ نہیں کر سکتی، وزیراعظم کی تقریر سے عوام کو شدید مایوسی ہوئی، حکومت لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے سے متعلق ٹھوس پالیسی پیش نہیں دی گئی، الزامات لگانا آسان مگر حل نکالنا بہت مشکل ہے، توقع تھی کہ وزیراعظم ملک میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے، محترمہ نے پالیسی بنائی تھی تو پاور ہاؤس لگنا شروع ہو گئے، میں نے خود چین جا کر نندی پور پاور پراجیکٹ پر بات کی، دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان آئے مگر سرمایہ کاری کرنے والوں کو جیلوں میں بند کیا گیا۔