کیا کرنا ہے
10اگست کو ہادی اکیلا گھر میں تھا ، فرائی کرتے ہوئے، تیل کو آگ لگی اور یکدم پھیلنے لگی۔ پندرہ سال کی عمر میں ایسی ناگہانی آفت پڑ جائے تو فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہادی نے ایمرجنسی نمبر911کال کیا اور خود اس اعتماد کے ساتھ گھر سے نکل گیا کہ اب سب پولیس اور فائر بریگیڈ والے دیکھ لیں گے ، وہی ہوا پانچ منٹ میں تین فائر بریگیڈ کے ٹر ک ،پولیس کی گاڑیاں‘ ایمبولینس دروازے پر موجود۔ آگ پر قابو پا لیا گیا‘ ہادی کو ایمبولنس کے اندر بٹھا دیا گیا‘ اس کے والدین کو فون کیا۔ ان کے پہنچنے پر انہیںتسلی اور ضروری معلومات دیں۔ والدین بچے کو محفوظ دیکھ کر مطمئن۔ اگلے دن فائر بریگیڈ نے پورے علاقے میں راﺅنڈ کیا اور گھر گھر جا کر لوگوں کو یہ آگاہی دی کہ جب آگ پھیلنے لگے تو اسے بجھایا کیسے جایا۔ اسی سے ملتی جلتی کہانی‘ ایک 55 سال کے پاکستانی کے ساتھ یہی حادثہ یہیں کینڈا میں ہوا۔ ان صاحب نے آگ لگی ہوئی تیل کی کڑاھی کو ہاتھوں میں تھاما اوراسے لے کر بیسمنٹ سے اوپر کی طرف بھاگنے لگے‘ تیل اچھلا‘ اس پر ان صاحب کا پاﺅں پڑا‘ وہ پھسلے اور منہ کے بل تیل پر آرہے ،منہ جلا‘ ہاتھ جلے اور آج تک وہ نشانات اُسی طرح چہرے پر موجود ہیں۔ دونوں واقعات میں فرق ہے ”کرنا کیا ہے؟“۔ ہادی جو عمر میں چھوٹا ہے مگر کینڈا کے نظام نے اسے یہ اعتماد اورعمل کرنے کی ایک کلئیر کٹ لائن دی ہے۔ جس کے نتیجے میں اس نے سب سے پہلے ایمرجنسی نمبر کال کیا اور دوسرے نمبر پر اپنی جان کو محفوظ کیا۔ وہ اپنے اس عمل میں کسی قسم کے تذبذ ب کا شکار نہیں ہوا۔ دوسری طرف عمر میں بڑا ہونے کے باوجود وہ صاحب فیصلہ نہیں کرسکے کہ کرنا کیا ہے‘ آگ لگی کڑاھی کو ہاتھوں میں لے کر گھومتے رہے اور اپنا منہ جلا بیٹھے۔
15اگست کو اسلام آباد کا سنسنی خیز ڈرامہ جس کے مرکزی کردار سکندر اور زمرد خان تھے کھیلا جا رہا تھا‘ ساری دنیا لائیو کوریج دیکھ رہی تھی۔ کوئی ہیرو اور کوئی ولن۔ تفریخ کا ساماں بہت اچھا تھا‘ اس وقت کون کم بخت ہالی ووڈ‘ یا بالی ووڈ کی فلم دیکھتا جب پاکستان کا رابن ہڈ لائیو نظر آرہا تھا۔ایک نفسیاتی مریض ہاتھوں میں کلاشنکوف اٹھائے اپنے ہی بیوی بچوں کے ساتھ پکنک مناتے مناتے ایک دم سے اسلام آباد کو پانچ گھنٹوں کے لئے مفلوج کر دے تو ذہنی مریض وہ نہیں‘ بلکہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے آئے روز دہشت گردی کا شکار ہوئے ملک کو نوچنے کھسوٹنے کے لئے لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ ایک پاگل آدمی کو پکڑنے کے لئے وزیر ِ داخلہ کے احکامات کا انتظار کیا جاتا رہا۔ سکیورٹی اداروں کی ناکامی بنیادی طور پر دو باتوں کو ظاہر کرتی ہے‘ ایک ناانصافی اور ظلم پر مبنی معاشرے کو‘ جس میں اہلیت کو چھوڑ کر نااہلوں کو اقربا پروری‘ سفارش اور رشوت کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا ہے ۔ اور دوسرا ارباب ِ اختیار کا یہ فیصلہ کہ ہر قسم کے اختیارات کو اپنے ہی ہاتھ میں رکھنا اور اتھارٹی کو آگے delegateنہ کرنا۔ بادشاہ سلامت چاہتے ہیں کہ پتہ بھی ہلے تو میری مرضی سے۔ جس کے نتیجے میں چوبیس گھنٹے‘ ہفتے کے ساتوں دن مہینے کے تیسوں دن‘ سال کے 365 دن دہشت گردی کا شکار ملک آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ ”کرنا کیا ہے ؟“۔ کینیڈا کے نظام میں تربیت پانے والا 15 سال کا ہادی جانتا ہے کہ ایمرجنسی کی صورت میں کرنا کیا ہے؟ وہاں اسلام آباد میں نہ عام شہری‘ نہ میڈیا اور نہ متعلقہ سکیورٹی ادارے جانتے ہیں کہ ”کرنا کیا ہے؟“۔
مسسز ساگا کینیڈا میں 27 سال کے نیل آرمسٹرنگ نے اپنے آپ کو ایک تلوار کے ساتھ گھر میں بند کر لیا۔ وہاں پولیس 14 گھنٹے گھیرا ڈالے کھڑی رہی۔ معاملہ صاف نہیں تھا‘ اس نے کسی کو یرغمال بنا رکھا ہے یا نہیں۔ پولیس کا عمل دیکھئے۔ اردگرد کے 12 گھر خالی کروا دئیے گئے۔ سٹریٹ کے باہر دونوں طرف سے داخلے کی جگہ پر صرف ایک پیلے رنگ کی پٹی لگا دی گئی‘ اب اس پٹی سے آگے نہ کوئی عام شہری‘ نہ گاڑی اور نہ ہی میڈیا آسکتا تھا۔ قریبی سکولز کو فوراً ہدایات جاری کر دی گئیں کہ کوئی بچہ والدین کے بغیر سکول کے باہر نہیں آسکتا۔ اوپر ہیلی کاپٹر پھرنے لگ گیا۔ پولیس اس آدمی کے ساتھ بات کرتی رہی۔ میڈیا پر ایک بہت ہی ہلکی سی خبر چلتی رہی۔ نہ کسی نے اس سے لائیو انٹرویو لینے کی کوشش کی‘ نہ میڈیا کی کوئی لائیو کوریج ٹی وی پر آرہی تھی۔ عوام اور میڈیا سب تابع تھا اس پیلی پٹی کے جو پولیس نے لگا رکھی تھی۔ 14 گھنٹے بعد جب تھک ہار کر اس نے دوسری منزل سے چھلانگ لگائی اور بھاگ نکلا تو پولیس نے آدھ گھنٹے بعد اسے پکڑ لیا۔ اس علاقے کے پاکستانی لوگوں کا تبصرہ تھا کہ پولیس نے ایسے ہی اس معاملے کو اتنا لٹکایا‘ یہی پاکستان ہوتا تو کسی عام شہری نے ہی کوٹھے پھلانگ کر اسے جا پکڑنا تھا۔ ٹھیک کہا تھا‘ ہم نے دیکھ لیا‘ ساڑھے پانچ گھنٹے پولیس‘ انتظامیہ بے بس کھڑی رہی‘ وہ کیا سوچ رہی تھی‘ ان کے پاس کیا ہدایات تھیں‘ تھیں بھی یا نہیں؟ ایک پاگل یونہی کھیل تماشے میں شہر کو مفلوج بنائے کھڑا رہا اور ٹھیک کہا تھا مسسز ساگا کے پاکستانیوں نے کہ ایسا پاکستان میں ہوتا تو کسی عام شہری نے ہی جا دبوچنا تھا۔ جی اسلام آباد کے پاگل سکندر کو زمرد خان نے ہی جا دبوچا۔ اور لوگ آج تک بحث کر رہے ہیں پاگل کون ہے؟ سکندر یا زمرد خان،؟ یا وہ لوگ جو اوپر کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے یا وہ میڈیا جو انہیں فون پر لے رہا تھا اور پاگل کی بیوی سے گالیاں کھا رہا تھا (ہر گالی کے ساتھ ریٹنگ بھی تو اوپر جاتی ہے) یا وہ حکمران جو ہر چیز کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں، جنہوں نے ان پولیس والوں کو‘ اعلی افسران سے لے کے نیچے کمانڈوز تک کو یہ اختیار‘ یہ اعتماد نہیں دیا کہ وہ کرا ئسس میں پندرہ سال کے ہادی جتنا ہی فیصلہ کر سکیں۔
مسسز ساگا کی 92 سالہ آہنی مئیر Hazel McCallion جو 34 سال سے اس لئے بار بار منتخب نہیں ہوتی کہ یہ سیٹ اس کے باپ نے اسے وراثت میں دی تھی بلکہ اپنے ان اقدامات کی وجہ سے جس نے مسسز ساگا کو فائدے پہنچائے ہیں یہ ریکارڈ بنایا ہے۔ چلتے چلتے اسی لیڈر کا چھوٹا سا واقعہ سن لیں‘ اپریل 2006ءمیں ایک آدمی خودکشی کے ارداے سے ہائی رائز بلڈنگ پر چڑھ گیا‘ پانچ گھنٹے تک پولیس‘ سکیورٹی ادارے‘ پیرا میڈیکل سب نیچے کھڑے‘ میئر کو اطلاع ملی‘ وہ وہاں آئیں‘ اسے ڈانٹا کہ چلو نیچے اترو‘ پولیس‘ پیرا میڈیکل اور فائر بریگیڈ والوں کو زیادہ اہم کرنے ہیں۔ وہ شخص آرام سے نیچے اتر آیا۔ ہمارے لیڈران میں یہ سحر‘ یہ رعب‘ یہ سچ نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر یہ ہوتا تو تمام قومی ادارے تباہ ہی نہ ہوتے۔ ہادی اس نظام کا حصہ ہے جہاں کی لیڈر ہیزل ہے‘ زمرد خان اس نظام کا حصہ ہے جہاں کے لیڈرز خود تو شیشے کے محلوں میں بیٹھے ہیں اور عوام‘ سکیورٹی ادارے اور میڈیا بغیر کسی گائڈ لائن کے ہاتھوں میں آگ لگی تیل سے بھری کڑاھی لئے ادھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔۔۔ اور کوئی پتہ نہیں کہ ”کرنا کیا ہے“۔