بے نظیر قتل کیس میں مشرف پر فرد جرم عائد اور آئندہ عدالت میں حاضری سے استثنیٰ ........ کیس کے ملزمان کو انصاف کی عملداری پر یقین رکھنا چاہیے
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سمیت سات ملزموں پر گزشتہ روز فرد جرم عائد کر دی۔ جنرل (ر) مشرف نے صحتِ جرم سے انکار کیا اور کہا کہ ان کیخلاف یہ مقدمہ سیاسی انتقامی کارروائی ہے‘ وہ بے گناہ ہیں اور اس کیس میں خود کو بے قصور ثابت کرینگے۔ عدالت کی جانب سے عائد کی گئی فرد جرم میں ملزم مشرف پر گیارہ الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ کو گواہوں کی فہرست پیش کرنے کا حکم دیا۔ ان گواہوں میں امریکی صحافی مارک سیگل بھی شامل ہیں جنہیں بے نظیر بھٹو نے ملک واپسی کے موقع پر بتایا تھا کہ انکی زندگی کواگر جو بھی خطرہ لاحق ہوا‘ اسکے ذمہ دار جنرل مشرف ہونگے۔ ملزم مشرف کو سخت ترین سکیورٹی انتظامات میں سب جیل چک شہزاد فارم ہاﺅس سے لا کر ضلع کچہری راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ اس مقدمہ کے دیگر ملزمان بشمول سابق سی پی او اسلام آباد سعود عزیز اور سابق ایس پی راول خرم شہزاد وڑائچ بھی کمرہ¿ عدالت میں موجود تھے۔ عدالت نے سکیورٹی کے پیش نظر ملزم مشرف کی مستقل طور پر عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔ اب مشرف اس کیس کے فیصلے کے وقت عدالت میں پیش ہونگے۔ ملزم مشرف پر عائد کی گئی چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے شریک ملزم سابق سی پی او سعود عزیز کے ساتھ ملی بھگت کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں مدد فراہم کی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007ءکو لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر اس وقت دہشت گردی کی واردات کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں‘ جب وہ عام انتخابات کیلئے پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کے سلسلہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے بعد لیاقت باغ سے باہر آئیں۔ سکیورٹی کے ناقص انتظامات میں جس انداز میں دہشت گردی کی یہ واردات ہوئی‘ اس سے ابتدائی طور پر ہی یہ نتیجہ اخذ ہو گیا تھا کہ حکومتی انتظامی مشینری کی جانب سے دانستہ طور پر محترمہ کی جان لینے کے اسباب پیدا کئے گئے تھے۔ اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل مشرف کے ساتھ این آر او کرکے ملک واپس آئیں جس میں انتخابات اور اقتدار کے حوالے سے ایک دوسرے کو ضمانتیں فراہم کی گئی تھیں تاہم محترمہ نے انتخابی مہم کے دوران پینترا بدل لیا اور اپنی تقاریر میں جنرل مشرف کی آمریت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا اس لئے جب محترمہ کے ساتھ لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر سانحہ پیش آیا تو اس سے بادی النظر میں یہی تاثر پیدا ہوا کہ وہ مشرف کی انتقامی سوچ کی بھینٹ چڑھی ہیں۔ اس تاثر کو وقوعہ کے فوری بعد جائے وقوعہ کو دھو کر تمام شواہد مٹانے‘ شدید زخمی محترمہ کو فوری طور پر ہسپتال پہنچانے کا کوئی انتظام نہ کرنے اور انکے پوسٹ مارٹم سے گریز کرنے سے بھی تقویت حاصل ہوئی جبکہ جلسہ کے اختتام پر محترمہ کی واپسی کے طے شدہ شیڈول کے برعکس انکی گاڑی دوسرے گیٹ سے نکالنے کے معاملہ نے بھی محترمہ کے قتل کی کسی طے شدہ سازش کی ہی نشاندہی کی اور پھر محترمہ کے ایک سکیورٹی گارڈ خالد شہنشاہ کے پراسرار قتل نے بھی محترمہ کے قتل کے حوالے سے پیدا ہونیوالے شکوک و شبہات کو تقویت پہنچائی۔
پیپلز پارٹی نے 18 فروری 2008ءکے انتخابات کے نتیجہ میں برسراقتدار آنے کے بعد مقامی ایجنسیوں کے علاوہ سکاٹ لینڈیارڈ اور پھر یو این تفتیشی ٹیم کے ذریعہ بھی محترمہ کے قتل کیس کی تحقیقات کرائیں اور یو این تفتیشی ٹیم کی جاری کردہ رپورٹ کی روشنی میں جنرل مشرف کو محترمہ کے قتل کی ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا جس میں اب انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ انہیں اس کیس میں اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے جس کا انہوں نے اعلان بھی کیا ہے جبکہ اس کیس میں سزا کی صورت میں ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے دو مواقع بھی مشرف کو دستیاب ہونگے۔ انہیں توقع رکھنی چاہیے کہ انکے ساتھ انصاف کی عملداری کے تمام تقاضے پورے کئے جائینگے اور اس کیس میں انکی بے گناہی ثابت ہونے پر وہ انصاف کی عملداری میں سرخرو بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ کیس اس حوالے سے مقامِ عبرت بھی ہے کہ ڈکٹیٹروں کو اپنے یکا و تنہا اقتدار کے دوران آئین و قانون اور انصاف کی عملداری کا کبھی نہیں سوجھتا اور وہ اپنے اقتدار کی بقاءو استحکام کیلئے کسی انسان کی جان لینے سمیت کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرتے۔ جنرل مشرف کو بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں بطور شریک ملزم نامزد کیا گیا ہے جبکہ اس قتل میں انکے ملوث ہونے کے بادی النظر میں کافی شواہد بھی سامنے آچکے ہیں۔ ان میں محترمہ کی صاحبزادی آصفہ بھٹو کا ٹوئٹر پر دیا گیا یہ پیغام ان دنوں آئینی اور قانونی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ جنرل مشرف نے انکی والدہ پر واضح کیا تھا کہ آپکی سکیورٹی کا انحصار میرے ساتھ تعلقات سے مشروط ہو گا۔ اسی تناظر میں محترمہ نے اپنی زندگی میں ہی بیان ریکارڈ کرادیا تھا کہ انہیں قتل کیا گیا تو اسکے ذمہ دار جنرل مشرف ہونگے۔ انہوں نے اپنا یہی بیان امریکی صحافی مارک سیگل کو بھی ای میل کیا جس کی بنیاد پر وہ اس کیس میں استغاثہ کے گواہ بنے ہیں۔
وقوعہ کے بعد اس وقت کی نگران حکومت کی وزارت داخلہ کی جانب سے محترمہ کے قتل کی ذمہ داری طالبان گروپ کے ایک لیڈر بیت اللہ محسود پر ڈالی گئی جس کے ساتھ مبینہ قاتلوں کی گفتگو کی ایک ٹیپ کی بھی میڈیا پر تشہیر کی گئی۔متعدد تفتیشی رپورٹوں میں حملہ آوروں کی ٹریل کا مدرسہ حقانیہ تک بھی پیچھا کیا گیا۔ اس سلسلہ میں حال ہی میں شائع ہونیوالی ہیرالڈومونوز کی کتاب: "Getting away with murder" میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ایک بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے بیت اللہ محسود کی جانب سے بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام پر شک کا اظہار کیا اور حیرانی ظاہر کی کہ بغیر مکمل تحقیقات کے فوراً پریس کانفرنس کیوں بلائی گئی؟ جنرل کیانی سے ملاقاتوں کے دوران یو این کے تحقیقاتی افسر نے انٹیلی جنس کے گمراہ اور ریٹائرڈ افسران کے کردار پر بھی شک کا سایہ پایا اور محترمہ کے قتل میں مشرف حکومت کی غفلت‘ القاعدہ کا آرڈر‘ طالبان کا حملہ آور پولیس کی طرف سے کرائم سین اور تحقیقات پر پردہ ڈالنے کی کوشش‘ تمام کو مجرم پایا۔ ہیرالڈو محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش کرنیوالے اقوام متحدہ تفتیشی پینل کے سربراہ تھے اس لئے انکی یہ کتاب بھی بے نظیر بھٹو قتل کیس میں جنرل (ر) مشرف کیخلاف بطور ثبوت پیش کی جا سکتی ہے جبکہ اپنی حکمرانی کے دوران مشرف کی متعدد معاملات میں متکبرانہ سوچ کے اظہار سے بھی وہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ انتقامی کارروائی کے حوالے سے اس کیس کی زد میں آسکتے ہیں۔ اگرچہ مشرف بے نظیر بھٹو قتل کیس میں بطور شریک ملزم اپنی نامزدگی کو وہ سیاسی انتقامی کارروائی سے تعبیر کر رہے ہیں تاہم ہیرالڈو کی کتاب کے منظرعام پر آنے کے بعد بے نظیر قتل کیس کے حوالے سے سامنے آنیوالے حقائق و شواہد نے اس کیس میں مشرف کے ملوث ہونے کے شبہ کو مزید تقویت پہنچائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی میں دانستہ طور پر غفلت برتی گئی تھی۔
اب چونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر التواءہے اس لئے کیس کے فیصلہ سے پہلے کسی قسم کا نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا تاہم اس کیس میں مشرف کا جرم ثابت ہو گیا تو اس حوالے سے یہ کیس بھی تاریخ کا حصہ بن جائیگا کہ سول یا فوجی آمر اپنے اقتدار کی بقاءو استحکام کی خاطر ریاستی انتظامی مشینری کو اپنے مخالفین کی جانیں لینے تک کیلئے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ صورتحال آئندہ کیلئے اپنے ذہنوں میں آمریت کا خناس پالنے والوں کیلئے بھی ایک سبق ہو گی۔ مشرف کا یہ اقدام بہرصورت قابل ستائش ہے کہ وہ ملک واپس آکر اپنے خلاف درج مقدمات کا سامنا اور دفاع کر رہے ہیں۔