خوئے سلطانی!
خوئے سلطانی!
26مئی 1633کومغل فوج کی سالانہ رژہ (پریڈ) کا اہتمام کیا گیا۔میدان ِرژہ (پریڈ گراو¿نڈ) میںعسکری نمائش کے ملاحظے کیلئے شہنشاہ شاہ جہاں اپنے حرم کے ساتھ موجود تھا۔شاہ جہان کے پہلو میں ملکہ ممتاز محل جلوہ افروزتھی، جس کے ساتھ ولی عہد، شہزادوں اور شہزادیوں کی قطاریں تھیں، جبکہ امرا کی الگ ترتیب تھی۔اس پریڈ میں مغل فوج کا سب سے خوفناک اور طاقت ور جنگی ہاتھی ”سدھاکر“اچانک مست ہوکر شاہی چبوترے کی طرف چڑھ دوڑا، شہنشاہ اور ملکہ کو تو ان کے محافظ دستے نے اپنے حصار میں لے کے ہاتھی کی جانب نیزے تان لیے،تاہم شہزادوں اور شہزادیوں کی دوڑیں لگ گئیںاور بھگدڑ میں کئی ایک کو چوٹیں بھی آئی۔ زرق برق شاہی پوشاکوں میں ملبوس ولی عہد اور شہزادوں میں سے دارہ شکوہ، شاہ شجاع اور مراد بخش دہشت زدہ ہوکرمحفوظ ٹھکانہ ڈھونڈنے لگے، لیکن زندگی کی پچیس بہاریں دیکھنے والا ایک شہزادہ بالکل خوفزدہ نہ ہوااور سینہ تان کر”سدھاکر“ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ شہزادے کا یہ پاگل پن دیکھ کر مجمع نے اسے سامنے سے ہٹنے کیلئے آوازیں دینا شروع کردیں، لیکن شہزادے نے کسی آواز پر کان دھرنے کی بجائے ایک محافظ سے نیزہ چھینا اور زقند بھر کرہاتھی پر سوار ہوگیا۔ شہزادے نے پوری قوت نے نیزہ ہاتھی کی گردن میں گھونپ کر وحشی ہاتھی کو وہیں ڈھیر کردیا اور ہاتھ جھاڑ کر مسکراتا ہوامردہ ہاتھی پرسے نیچے اتر آیا۔ یہ شہزادہ کوئی اور نہیں بلکہ مستقبل کا آخری باجبروت مغل حکمران اورنگزیب عالمگیر تھا۔ شاہ جہاں نے خوش ہوکر اورنگزیب کو بہادر کا خطاب عطا کیا اور سونے میں تولنے کے علاوہ دو لاکھ روپے انعام سے بھی نوازا۔ بعد میں اورنگزیب نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ ”اگر اس ”لڑائی“ میں ہاتھی اسے کچل دیتا تو اس میں شرم کی کوئی بات نہ تھی کیونکہ موت تو شہنشاہوں کو بھی آتی ہے، لیکن شرم کا کام تو وہ تھاجو میرے بھائیوں نے کیا، یعنی مقابلے سے بھاگ گئے“۔آنے والوں برسوں میں عالمگیر نے اپنی شجاعت اور ذہانت سے ثابت کیا کہ مغل سلطنت کا والی وارث اسے ہی ہونا چاہیے، لیکن شاہ جہان نے اسے نظر انداز کرکے دارہ شکوہ کو نامزد کیا تو اورنگزیب بھڑک اٹھا اور اپنی بہادری اور عسکری قوت سے خود کو تخت کا اصل وارث ثابت کردیا۔ عالمگیر نے شاہ جہان کو معزول کرکے پورے احترام کے ساتھ آگرہ قلعہ میں قید کردیا۔عالمگیر نے اپنے والد سے کوہ نور ہیرا طلب کیا، لیکن شاہ جہان نے کہا کہ وہ اس ہیرے کو پسواکر سفوف بنادے گا، لیکن جیتے جی یہ ہیرا اورنگریب کے حوالے نہیں کرے گا۔ اُدھر جوں جوں قید تنہائی میں وقت گزرنے لگاتو شاہ جہان کے کس بل بھی نکلتے چلے گئے۔ کہاں پورے ہندوستان کی شہنشاہی اور کہاں آگرہ کی قیدتنہائی ، نتیجہ یہ نکلا کہ تقطیر البول اوراسہال خونی میں مبتلا معزول شاہ جہان جلد ہی اس قید سے اکتا گیا اور اسے شاہی دربار کی رونق اور اپنا شاہی جلال رہ رہ کر یاد آنے لگا۔ شاہ جہان نے خدمت پر ماموراپنی صاحبزادی کے ذریعے عالمگیر کو پیغام بھجوایا کہ قید میں وقت کٹتا نہیں اور دل لگتا نہیں، اگر اسے کچھ بچے بھجوادیے جائیں تو وہ انہیں پڑھابھی لیا کرے گا اور اس کا دل بھی لگا رہے گا، شاہ جہان نے عالمگیر کو خوش کرنے کیلئے اس موقع پر کوہ نور ہیرا بھی دربار میں بھجوادیا ۔ شاہ جہان کی یہ خواہش دربار تک پہنچی تو عالمگیربولا”گویا والد صاحب اب بچوں کے سامنے اپنا دربار لگایا کریں گے، افسوس سلطنت جاتی رہی اور تاج و تخت چھن گیا، لیکن والد صاحب کی خوئے سلطانی نہیں گئی“۔اورنگزیب کوہ نور ہیر ے کی چمک دمک دیکھ کر مسکرایااور امراءکے بچے پڑھنے کیلئے آگرہ قلعہ روانہ کردیے۔
دریائے گنگا کے کنارے پربنائے گئے آگرہ قلعہ سے شمال کی جانب ایک ہزار ایک سو پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے کابل کے کنارے پر اٹک قلعہ واقع ہے، جہاںپاکستانی تاریخ کے سب سے طاقت ور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو 1999ءمیں معزول کرکے 2000ءتک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ان قلعوں کے جبری مکین بننے والے دونوں حکمرا ن یعنی شاہ جہان اور نواز شریف تعمیرات کے دلدادہ رہے، لیکن شاہ جہان اور نواز شریف میں فرق یہ ہے کہ آگرہ قلعہ میںشاہ جہان دکھی ہوتا تو وہ جھروکے سے اپنی محبت کی حسین یادگار تاج محل کا نظارہ کرسکتا تھا، لیکن دوران قید نواز شریف کو یہ سہولت حاصل نہ تھی کہ وہ سیر کے بہانے ہی بیس کلومیٹر کے فاصلے سے گزرنے والے اپنے تعمیر کردہ موٹر وے کی ایک جھلک ہی دیکھ سکتے۔ شاہ جہان تو چھ سال آگرہ قلعہ میںقید رہنے کے بعد اللہ کے پاس چلا گیا، لیکن میاں نواز شریف کو اللہ تعالی نے جلد ہی اٹک قلعہ سے اپنے گھر بلوالیا۔جہاں میاں نواز شریف نے بھرپور طریقے سے اپنی سیاست جاری رکھی۔ دیارِ عرب سے سرزمین انگلستان تک اور پھرفرنگیوں کے دیس سے اپنے وطن واپسی تک کا دور بہت طویل یا کوئی قصہ پارینہ نہیں، بلکہ حال ہی کی کہانی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اقتدار سے باہر اور جیل کے اندر رہ کر میاں نواز شریف نے بہت کچھ سیکھا ہے اور بہت کچھ سمجھا ہے اور گزشتہ چودہ برسوں کے تجربات ہی میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی کا اصل اثاثہ بتائے جاتے ہیں۔ اس سیاسی اثاثے کی کچھ جھلکیاں تو میاں نواز شریف کی حالیہ سیاست میں بھی دکھائی دیتی ہے۔مثال کے طور پر گیارہ مئی کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے کے تمام مواقع اور مولانا فضل الرحمن کی تمام تر ترغیب کے باوجود نواز شریف نے اکثریتی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو وہاں حکومت بنانے کا موقع دیا۔ دوسری جانب شکست و ریخت کے شکار بلوچستان میں اپنا کٹھ پتلی بندہ بٹھانے کی بجائے تعمیر نو کی ذمہ داری بلوچوں کے حوالے کردی۔ اُدھر آزاد کشمیر میں ”مہم جووں“ نے مظفرآباد حکومت کا تیا پانچا کرنے کیلئے بساط بچھائی تو میاں نواز شریف نے اپنے لوگوں کو سختی سے اس میں حصہ لینے سے منع کردیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم اب وہ پہلے والے نواز شریف نہیں رہے، اس کا ایک اندازہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات کی حالیہ نوعیت بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جس ”نیشنل سکیورٹی کونسل“ کی تجویز دینے پرچودہ برس پہلے جرنیلوں کے ساتھ میاں نواز شریف کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے،اب وہی سیکیورٹی کونسل میاںنواز شریف نے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں خود ہی بنادی ہے۔ دوسری جانب بہتر گورننس کے ذریعے ملک کے اقتصادی مسائل حل کرنے کیلئے یقینا میاں نواز شریف اس بار بھی کافی پرعزم دکھائی دیتے ہیں، لیکن امریکہ اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات سے لے کر اندرون ملک سیکیورٹی کے مسائل کے عفریت سے نمٹنے تک ملک میں کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف کی داخلہ اور خارجہ پالیسی بالکل وہی ہے، جس نے پرویز مشرف کے دور میں جنم لیا اور بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسے اچھی طرح پال پوس کر جوان کیا۔
قارئین محترم!! قوم سے میاں صاحب کے”پرمغز“ خطاب سے صاف لگ رہا تھا کہ سوا تین سو سال پہلے امراءدہلی کے بچوں کیلئے شاہ جہان کے” لیکچرز“ تیارکرنے والا اب وزیراعظم کی تقریر لکھنے پر مامور ہے۔ اس خطاب میں بڑے میاں صاحب ناخواندہ قوم کو سمجھاتے رہے کہ ”بچو! پتہ ہے کہ گردشی قرضے کیا ہوتے ہیں؟“ اور ”بچو! آپ کو پتہ ہے کہ ٹرانسمیشن لائن کتنے سال میں بچھتی ہے؟“وغیرہ وغیرہ ۔محسوس ہوتا ہے کہ یہ خطاب ضبط ِتحریر لاتے ہوئے تقریر نویس بھی ایک لمحہ کو مسکرایا ہوگا اور دل میں بولا ہوگا”طاقت کے اصل مراکز کے ساتھ اپنے تعلقات کو حقیقت پسندانہ بناکر میاں صاحب نے پاکستان میںحکومت کرنے کا ڈھنگ تو سیکھ لیا، لیکن ان کی”خوئے سلطانی“ ابھی نہیں گئی“۔