تحریک انصاف کے ایکشن پر پولیس ری ایکشن
تحریک انصاف کے ایکشن پر پولیس ری ایکشن
مسلم لیگ(ن) کا یہ انداز حکمرانی نہیں ہونا چاہیے جو گذشتہ روز لاہور مال روڈ پر ہوا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں، صوبائی صدر اور اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی پر پولیس کا دھاوا اور گرفتاریاں قطعاً جمہوری انداز حکمرانی نہیں ہے۔ گو وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے پولیس کے اس ایکشن پر ایکشن لیا اور تمام گرفتار ہونے والوں کی رہائی کا حکم جاری کیا جس پر تمام کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن جمہوری قدریں ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دیتیں۔ ہمارے پنجاب کے دیہی کلچر میں جہاں خواندگی کی شرح کم ہونے کے باعث اکثروبیشتر لڑائی جھگڑے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اس پنجاب میں ایک کہاوت بڑی پرانی اور معروف ہے کہ پہلے مدمقابل شخص یا پارٹی کی خوب دھنائی کی جائے اس کے بعد فوری طور پر معاملہ تھانے کچہری جانے سے پہلے متاثرہ فریق سے معافی مانگ کر باہم معاملہ رفع دفع کر لیا جائے شاید اسی فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پنجاب حکومت نے کام لیا اور تحریک انصاف کے ساتھ پولیس نے انصاف کر دیا۔ ہمارے ملک میں پولیس سٹیٹ کا رونا تاحال رویا جاتا ہے۔ پولیس اپنی روش تبدیل نہیں کر سکتی کہ جب تک سیاست دان اور حکمران اپنا قبلہ درست نہیں کرتے۔ آج بھی ہر تھانے، چوکی میں انچارجز ارکان اسمبلی کی منشا کے مطابق تعینات ہو رہے ہیں اور ضلعی سطح پر پولیس کے اعلیٰ حکام کی تعیناتی بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ جب صوبوں کو آئی جیز سیاسی بنیادوں پر تعینات ہوں تو نچلی سطح پر کاہے کا رونا رویا جائے۔ پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے جب تک استعمال کیا جاتا رہے گا اس وقت تک پولیس کی روایتی پولیس گردی اور پولیس سٹیٹ کا رونا مرثیے کی طرح الاپا جاتا رہے گا۔ مسلم لیگ(ن) کی تشہیری مہم میں قائداعظم محمد علی جناح کی تصاویر کو استعمال کیا جاتا رہا اور پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ وہ جماعت ہے جس نے ایک بھی گولی چلائے بغیر برصغیر میں پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے پاکستان کے قیام کو اس سنہری اور نظریاتی بنیادوں پر معرض وجود میں لے آئے کہ انہیں اس سیاسی جدوجہد کے تحت ایک مرتبہ بھی پابند سلاسل کرنے کا موقع انگریز سامراج کو میسر نہ آ سکا اور تمام تر کانگریسی سازشیں بھی ملیامیٹ ہوتی رہیں۔ لہٰذا مسلم لیگ(ن) جو پرویزمشرف کی سابقہ حکومت کے ہاتھوں اکتوبر 1999ءمیں ڈسی گئی تھی جس کے بعد 2008ءکے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرنے میںکامیاب ہوئی۔ اس کے بعد گیارہ مئی 2013ءکے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی وفاق اور پنجاب میں واضح برتری کے ساتھ حکومت قائم ہے۔ کیا مسلم لیگ(ن) کو ایسا زیب دیتا ہے کہ وہ پنجاب میں حزب اختلاف کو انتخابات میں دھاندلی کے الزام کے سائے تلے پرامن احتجاج کرنے پر پولیس کے سپرد کر دے۔ صرف وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے پولیس ایکشن پر ایکشن لینے سے بات نہیں بنتی۔ اصل معمہ تب حل ہو گا جب اعلیٰ سطح پر پولیس کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے اور ایسا صرف تب ممکن ہے جب پنجاب حکومت براہ راست اس غیرجمہوری فعل میں ملوث نہ ہو۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ خاں کے بیانات سے ان کے سیاسی اور حکومتی رجحان کو سمجھنے میں زیادہ مشکل نہیں ہونی چاہیے اور یہ کوئی معمہ نہیں کہ جب خود تحریک انصاف کے مظاہرین کی طرف سے الزام عائد کیا گیا کہ ان پر رانا ثناءاللہ کی منشا کے عکس میں لاٹھیاں برسائی اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں تو اس کا کس طرح انکار ممکن ہے۔ خود مسلم لیگ(ن) کے سربراہ اور وزیراعظم میاں محمد نوازشریف خیبر پی کے کی حکومت کے بارے میں ایک مرتبہ رانا ثناءاللہ کے بیان پر ناراضگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ہم صدرمملکت آصف علی زرداری اور ان کی جماعت پیپلزپارٹی کے بارے میں لاکھ تنقید کریں مگر ایک کریڈٹ ان کو لازمی جاتا ہے کہ انہوں نے میڈیا، سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کی تمام تر تنقید کا کڑوا گھونٹ اپنے اقتدار کے دوران پیا۔ اب وقت 1990ءکی دہائی جیسا نہیں رہا۔ خود میاں محمد نوازشریف جب سندھ کے دورے پر جاتے ہیں تو ان کے ساتھ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور گورنر ڈاکٹر عشرت العباد موجود ہوتے ہیں۔ ایک کا تعلق پیپلزپارٹی اور دوسرے کا ایم کیو ایم سے ہے۔ لہٰذا اب جبکہ مسلم لیگ(ن) کو عوام نے بھاری مینڈیٹ سے نوازا ہے تو انہیں تنقید کی کڑوی گولی بھی نگلنا پڑے گی۔ میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کے ساتھ ہی سول سوسائٹی میں شعور اور احتجاج کے ذریعے اپنے جمہوری حق کو سربلند کرنے کا رجحان عام ہو چکا ہے۔ اس رجحان کا حکومتی مشینری کے ذریعے قلع قمع کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اس کے سیاسی نقصانات بیش بہا ہیں جیسا کہ گذشتہ روز جب تحریک انصاف پولیس ایکشن کا نشانہ بنی تو پورا میڈیا تحریک انصاف کو بھرپور کوریج دینے لگا جس سے سیاسی اور عوامی سطح پر تحریک انصاف کو بھرپور پذیرائی ملی۔ تحریک انصاف کے بارے میں پہلے ہی سیاسی مبصرین کی رائے متفقہ ہے کہ اگر مسلم لیگ(ن) کی موجودہ حکومت کے دوران تحریک انصاف اپنے احتجاج اور اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو جس طرح ملک کے چاروں صوبوں میں تحریک انصاف عوامی مینڈیٹ حاصل کر رہی ہے اس کا ثبوت گذشتہ روز کے ضمنی انتخابات بھی دے رہے ہیں تو آئندہ تحریک انصاف حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس لئے کیا ضروری نہیں کہ طاقت کے ساتھ ہوش بھی کی جائے۔ مال روڈ پر تحریک انصاف پر پولیس ایکشن کہیں عوامی ایکشن کا سبب نہ بن جائے۔ اس کے بارے میں سوچنا ہمارا اور عوام کا کام ہے جن کا ہے انہیں یہ سوچ کر جمہوری قدریں مزید مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔