• news

شہباز شریف اور عمران کو پولیس کا پیغام

شہباز شریف اور عمران کو پولیس کا پیغام

شہباز شریف نے مال روڈ پر تحریک انصاف کی عورتوں اور مردوں کے ساتھ بدتمیزی اور گرفتاری کا نوٹس لیا اور اُن کی رہائی کا حکم دیا۔ مجھے یہ بتایا جائے کہ پولیس کو بدتمیزی اور گرفتاری کا حکم کس نے دیا تھا؟ ہمیشہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ پولیس ہر حکومت کی سرکاری پارٹی ہوتی ہے۔ حکمران جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو ان کے ساتھ بھی پولیس یہی کچھ کرتی ہے۔ گرفتار تو شریف برادران بھی ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ بدتمیزی بھی ہوتی۔ مجھے پرویز رشید پر جیل میں تشدد کا بہت افسوس ہے۔ مجھے وہ منظر بھی نہیں بھولتا جب اسی پولیس نے عزت مآب میاں محمد شریف کو اپنے دفتر سے اٹھا کر پولیس وین میں پھینکا تھا۔ منظور وٹو نے ان کی گرفتاری کا نوٹس بھی نہیں لیا تھا۔ ہر دور میں یہ ہوتا ہے اور اسے روٹین کی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کو پنجاب پولیس کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے تحریک انصاف کے لئے جو تھوڑی بہت ناگواری پیدا ہوئی تھی۔ اُسے خوشگزاری میں بدل دیا ہے۔
میں نے ایک کالم لکھا تھا تو یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ عمران خان کے حق میں تھا یا خلاف تھا۔ غلام احمد بلور نے جیت کر بھی اپنی بات گنوا دی۔ انہوں نے اپنی ہار کو تسلیم کیا تھا مگر اپنی جیت کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ بلور اور عمران دونوں کے لئے شرمناک ہے۔ میانوالی کے حوالے سے میرے دل میں بڑا غم و غصہ تھا۔ میں نے فوری طور پر کالم نہ لکھا۔ میں جانتا ہوں کہ غم غصے سے بہتر ہوتا ہے۔ یہ دونوں اکٹھے آ جائیں تو جذبات رل مل جاتے ہیں اور زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے مجھے شرم آ رہی ہے کہ میانوالی میں عائلہ ملک کے سمدھی غیر معروف اور غیر سیاسی وحید ملک کے ہارنے کی خوشی ہوئی ہے.... عمران نے اپنی دونوں سیٹیں صرف اپنے غیر ضروری اور غیر فطری زعم کے اندر ڈبو دیں۔ برادرم ہارون الرشید نے بہت ذومعنی بات کی ہے کہ تحریک انصاف اپنے آپ سے ہاری ہے۔ اُسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ ہاری ہے۔ عمران خان کو تکبر لے ڈوبا۔ تکبر کرنے والے تدبر نہیں کر سکتے وہ ابھی تک کرکٹ کے میدان سے باہر نہیں نکلا۔ سیاست کے میدان میں کوڑا کرکٹ نہیں بکھیرنا چاہئے۔
عمران نے جب میانوالی کی سیٹ چھوڑنے کا ارادہ کیا تو مجھے میانوالی سے سینکڑوں فون آئے۔ میں نے سوچا کہ میں لکھوں گا تو وہ ناراض ہو گا۔ میں اس کے خلاف نہیں ہوں۔ وہ خود اپنے خلاف ہے۔ اس نے گھر کی سیٹ چھوڑی۔ گھر والوں نے اُسے چھوڑ دیا۔ وہ عائلہ ملک کے لئے سب کو ناراض کر سکتا ہے۔ توفیق بٹ نے عمران خان کے اس بیان کے حوالے سے کہ میں خیبر پختون خوا چھوڑ دوں گا۔ اپنے منشور سے نہیں ہٹوں گا۔ لکھا ہے کہ ”کیا یہ منشور عائلہ ملک نے بنایا ہے“۔ منیر نیازی کی رشتہ دار تحریک انصاف کی حامی یاسمین خان کہتی ہے۔ تبدیلی کے لئے عمران خان کو پہلے اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔
میانوالی کے لوگوں نے عمران خان کو اس لئے ووٹ دئیے کہ وہ پاکستان کا وزیراعظم بنے گا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ نیا پاکستان بنائے گا۔ وہ تو نیا خیبر پختون خوا بھی نہ بنا سکا۔ نیا میانوالی کیسے بنائے گا۔ عائلہ ملک اور وحید ملک کی صورت میں بہت پرانا میانوالی بننے والا تھا کہ اللہ نے بچا لیا۔
حمزہ شہباز میانوالی جا پہنچے اور لوگوں کو یقین دلایا کہ عمران خان آپ کو کچھ نہ دے گا ہم دیں گے۔ انہوں نے جو وعدے 2002 میں کئے تھے۔ ان میں ایک بھی پورا نہیں کیا۔ 2013ءمیں تو وعدہ بھی کوئی نہیں کیا۔ میانوالی میں عبیداللہ خان شادی خیل کی جیت میں حمزہ شہباز کا بھی کریڈٹ ہے۔ وہ ان انتخابات کے لئے انچارج تھے۔ انہیں معلوم ہے لاہور کی پی پی150 کی سیٹ سے اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر دھاندلی کیوں ہوئی؟ میانوالی میں عمران کی شکست دراصل ہزیمت ہے یہ اُس نظریے کی شکست ہے جس کا ذکر عمران خان کرتا ہے۔ اور خود اسے نہیں مانتا۔ میرے خیال میں نظریہ صرف نظریہ پاکستان ہے۔ فیس بُک پر ایک تصویر چل رہی ہے۔ اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ تصویر میں عمران خان منہ چھپائے ہوئے تھکا تھکا چل رہا ہے۔ آگے آگے عائلہ ملک ہے۔ اُس کے مختصر کپڑے زیادہ دیکھے جا رہے ہیں نیچے جو لکھا ہوا ہے۔ میں اس لئے نہیں لکھ رہا کہ شرم اور شرمناک کا لفظ عمران کے لئے منفی نہیں ہے۔ عائلہ ملک کے لئے ہو تو قابل اعتراض بھی نہیں ہے۔ یہ مصرعہ مرزا غالب کا ہے۔ لہٰذا اس میں مطلوب کا کوئی قصور نہیں ہے۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی
پھر بھی مجھے کیوں لگتا ہے کہ عمران خان وزیراعظم ضرور بنے گا۔ مگر وہ جو کچھ کرے گا۔ وہی کچھ ہو گا جو پاکستان کے وزیراعظم کرتے رہتے ہیں۔ میں تب بھی اس کے خلاف لکھوں گا کہ مجھے یقین ہے کہ کوئی وزیراعظم قابل تعریف کام کر ہی نہیں سکتا۔ اُسے کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ یہ بات عطاالحق قاسمی نے وزیراعظم نوازشریف کے لئے لکھی ہے تو اسداللہ غالب نے پوچھا ہے کہ یہ اشارہ کس طرف ہے۔ اشاروں کی زبان عطا قاسمی تو جانتے ہیں۔ کیا نوازشریف بھی جانتے ہیں۔ آدمی بدقسمت نہ ہو اور بدنیت نہ ہو تو اس کے لئے قدم قدم پر بڑے بڑے اشارے ہوتے ہیں۔
اشارے تو شہباز شریف کے لئے بھی ہیں۔ کیا انہوں نے دیکھا کہ کس طرح پنجاب پولیس نے مظاہرہ کیا۔ پنجاب پولیس بمقابلہ پنجاب حکومت؟ نوائے وقت سمیت ہر اخبار نے جو خبر لگائی ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ پنجاب پولیس نے تحریک انصاف کے بھوک ہڑتالی کیمپ پر دھاوا بول دیا۔ کیا پولیس اس تحریک کا راستہ ہموار کر رہی ہے جو 11 مئی کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف چلانے کا بار بار عمران خان اظہار کر رہے ہیں بلکہ دھمکی دے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ یہ تحریک نہیں چلانا چاہتے تھے مگر پولیس انتظامیہ اور حکومت نے اُسے مجبور کر دیا ہے۔ وہی طریقہ اختیار کیا جاتا جو خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں مبینہ دھاندلی پر مظاہرین کے خلاف اختیار کیا گیا تھا۔ اس میں خواجہ صاحب کا انداز سیاسی تھا۔ ہمیشہ غیر سیاسی طریقوں سے غیریت پھیلتی ہے اور غیرت جاگتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ جس طرح اعجاز چودھری اور عندلیب عباس کو گرفتار کیا گیا۔ اس طرح ملزموں کو بھی گرفتار نہیں کیا جاتا۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمودالرشید گرفتار ہونے کیلئے خود پولیس وین میں جا بیٹھے پھر انہیں رہا بھی کر دیا گیا۔ کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے۔ مجھے رانا ثنااللہ کی فیصل آباد میں گرفتاری یاد آ گئی جب وہ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر تھے۔ کیا ہمیشہ سیاسی مخالفین سے ایسا ہی ”سلوک“ کیا جاتا ہے؟ پولیس کو شریف لوگوں سے اچھا سلوک کرنے کی تربیت کب دی جائے گی؟
ممبر پنجاب اسمبلی اسلم اقبال نے کہا کہ ہمیں گرفتار کرنا ہے تو جیلوں کا سائز بڑھانا پڑے گا۔ اُن سے اس جملے کی وضاحت پوچھیں گے کہ رات کے اندھیرے میں بننے والی حکومت کے پاﺅں نہیں ہوتے۔ پاکستان میں تو دن کو بھی اندھیرا ہوتا ہے۔ یہاں یہ محاورہ برمحل ہے ”اندھیر نگری چوپٹ راج“۔ اسلم اقبال پہلے صوبائی وزیر بھی رہے ہیں۔ اب ان کے لیڈر بننے کے امکانات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ وہ مہذب اور مودب آدمی ہے۔
مجھے اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا دھرنا یاد آتا ہے۔ صدر زرداری نے کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا اور یہ دھرنا کسی نتیجے کی پریشانی کے بغیر ختم ہو گیا۔ طاقت کا استعمال نہ ہو۔ سیاست کا استعمال ہو۔ حکومت کو حکمت سے کام لینا چاہئے۔ کئی سیاستدانوں نے کہا ہے کہ آمرانہ دور کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ اس حکومت میں پرویز رشید ایک اچھا آدمی ہے۔ سب ان کی عزت کرتے ہیں۔ پروٹوکول اور سکیورٹی کی پروا بھی پرویز رشید نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اقدام کیا ہے۔ تو پھر شہباز شریف نے بھی رہائی کا حکم ہائی کورٹ کے حکم پر دیا ہو گا۔ اس گرفتاری اور رہائی کے لئے بھی پولیس کو کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ پولیس کو بیک وقت یہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ کسی کا گریبان پکڑنا اور پھر پاﺅں پڑ جانا۔ جب بارش ہونے لگی تو پولیس ملازمین نے اپنے پولیس افسران کے سروں پر چھتریاں تان لیں۔ جبکہ کسی لیڈر پر کسی کارکن نے کوئی چھتری نہ تانی۔ حتٰی کہ خواتین لیڈر کا میک اپ اتر گیا۔ اس کے لئے بھی وہ حکومت کو الزام دے رہی تھیں۔
تحریک انصاف نے عمران کی سیٹوں پر شکست کر قبول کر لیا ہے۔ خواجہ سلمان رفیق کے لئے اعتراض نہیں کیا۔ تو پی پی 150 میں میاں مرغوب خود کہہ دیں کہ دوبارہ گنتی کرا لو۔ اسی طرح ان گنت اندیشوں سے بچا جا سکتا ہے مگر....؟

ای پیپر-دی نیشن