لاپتہ افراد کی نعشیں کراچی میں پھینکنے والا خدمت نہیں ملک دشمنی کر رہا ہے: چیف جسٹس
کوئٹہ (ثناءنیوز + آن لائن + این این آئی + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے دو ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے ایف سی اور سکیورٹی اداروں کو حکم دیا کہ وہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرا کر عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ کسی کو غیر قانونی حراست میں رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اگر کوئی ملزم ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بلوچستان کے لاپتہ افراد اور امن و امان کے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے بیان دیا کہ آئی جی ایف سی اعجاز شاہد نے یقین دہانی کرائی ہے کہ سی آئی ڈی کو جو بھی ایف سی اہلکار چاہئیں وہ دئیے جائیں گے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ تین سال بہت ہوتے ہیں اب تو پیش رفت کی ضرورت ہے۔ شاہ خاور کا کہنا تھا کہ بہت جلد لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالہ سے کامیابی ملے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب ہم کیا امید رکھیں جب تین سال تک کچھ نہیں ہوا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس، چیف سیکرٹری سمیت تمام اعلیٰ حکام سنجیدہ ہیں گذشتہ رات اس حوالہ سے سٹیک ہولڈرز کا اجلاس بھی ہوا ہے۔ جلد ہی لاپتہ افراد کی بازیابی میں کامیابی حاصل کر لیں گے۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بہانہ نہیں کہ کون آئی جی ایف سی ہے ہمیں پیش رفت چاہئے۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت لاپتہ افراد کے متعدد کیسز میں تفتیشی ٹیم کو جواب نہیں دیتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس گھر سے کوئی بندہ جاتا ہے وہاں آگ لگی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبائی اداروں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوئی پیش رفت نہیں کی ان کا کہنا تھا کہ ایف سی کے پاس جتنے بھی لاپتہ افراد ہیں انہیں منظر عام پر لایا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا صوبائی حکومت سے جو امیدیں تھیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آئیں۔ حکومت ہمارے ساتھ تعاون کرے۔ ایف سی کے پاس پانچ ایسے افراد ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ایف سی کے پاس ہیں انہیں بھی منظر عام پر لا کر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی گمشدگی میں ایف سی اور دیگر سکیورٹی اداروں کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں ان تمام افراد کو فوری بازیاب کرا کر عدالت میں پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 70 لاپتہ افراد کے کیسز میں ایف سی اور دیگر ایجنسیوں کے خلاف ثبوت موجود ہیں۔ وفاقی حکومت بھی کوئی تعاون نہیں کر رہی۔ چیف جسٹس نے شاہ خاور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک تاریخ بتا دیں ہم انتظار کر لیتے ہیں۔ ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد کی نعشیں کراچی میں پھینکنے والا خدمت نہیں ملک دشمنی کر رہا ہے۔ چیف سیکرٹری کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ معاملہ وفاق کے ساتھ اٹھایا ہے جبکہ کراچی سے نعشیں ملنے پر سندھ حکومت سے بھی بات کی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جرائم میں ملوث لوگ ملک کو بدنام کر رہے ہیں جن کے گھر نعشیں جاتی ہین ان سے پوچھیں کیا گزرتی ہے عدالت نے ایف سی، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دو ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرا کر پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ حکومت کو رٹ قائم کرنی ہے تو اسے اقدامات کرنا ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا لاپتہ افراد کی خاطر اگر ہمیں اسلام آباد کا کام چھوڑنا پڑے تو وہ بھی چھوڑ دیں گے، اگر کوئی موثر کوشش کی ہوتی تو کم از کم چار افراد ہی بازیاب ہو جاتے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے آر اے بازار راولپنڈی سے لاپتہ محمد جمیل کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی مرتب کردہ رپورٹ طلب کر لی۔ حساس اداروں کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ محمد جمیل آئی ایس آئی اور ایم آئی کی تحویل میں نہیں۔