• news

محافظ لاہوربریگیڈئر عبدالقیوم شیر کا رزم نامہ

میرے لئے چھ ستمبر دس روز پہلے آگیا ہے۔ میں نے اپنے ایڈیٹرڈاکٹر مجید نظامی سے چند روز پہلے درخواست کی تھی کہ چھ ستمبر کے لئے میں جو کالم بھیجوں گا، اس میں ان کے کمرے میںآویزاں ایک تصویر بھی لگے گی، جس کی انہوںنے اجازت دے دی۔
یہ کالم تو میںانشا اللہ اس کے وقت پر لکھوں گا لیکن آج مجھے معرکہ لاہور کے ہیرو بریگیڈ یر عبدالقیوم شیرکی اچانک رحلت پر لکھنا ہے۔میں ابھی ڈیفنس لاہور کے بی بلاک کے مکان نمبر 150سے ہو کر آیا ہوں، ان کی بیٹیاں سفید اجلے لباس میں ایک کمرے میں سر جھکائے بیٹھی تھیں اور مجھے زمین سے آسمان تک قطار در قطار رحمت کے فرشتوں کی خوشبو محسوس ہوئی جو مرحوم بریگیڈیر کی پر نور روح کے استقبال کے لئے آسمانوں سے اتر رہے تھے۔
چھ ستمبر 65 کوبھارت نے عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر پھیلا دی تھی کہ اس کی فوج لاہور کی انارکلی میںمٹر گشت کر رہی ہے۔مگر عین اس وقت بریگیڈ یر عبدالقیوم شیرکی کمان میں ایک مختصر سا فوجی دستہ بھینی سے پیش قدمی کرتا ہوا لاہور امرتسر روڈ کو چودھویں میل پر کاٹ چکا تھا اور ہمارے سرفروش انجینئرز باٹا پور کا پل اڑانے کے لئے رات کی تاریکی میں کامیابی سے ہمکنار ہو چکے تھے ۔
یہ کوئی تاریخی اتفاق ہے کہ پاک فوج کے دسویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل سرفراز خاں نے اپنی زیر کمان فوج کو پانچ اور چھ ستمبر کی درمیانی شب تین بجے صبح اپنے دفاعی مورچے سنبھالنے کا حکم جاری کیا تھا اور بھارت نے بھی جارحانہ حملہ کے لئے یہی وقت مقرر کیا تھا۔
نمبر 22 بریگیڈ کو باٹا پور کے دفاع کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔اس کے سربراہ بریگیڈ یر عبدالقیوم شیر تھے جن کا تعلق نمبر11بلوچ سے تھا اور وہ 1948کی کشمیر کی جنگ آزادی میں پانڈو کے معرکے میں ایک کپتان کی حیثیت سے اپنی بہادری کا لوہا منوا چکے تھے۔
دشمن نے لاہور پر تین اطراف سے حملہ کیا تھا۔بھارتی فوج کے پندرہویں انفنٹری ڈویژن کے کمانڈرمیجر جنرل نرنجن پرشاد نے بڑھک ماری تھی کہ وہ اسی شام فتح کا جام لارنس گارڈن کے کلب میں نوش کریں گے۔لیکن بریگیڈ یر عبدالقیوم شیر کے جوابی حملے میں اس بھارتی جنرل کو اپنی فلیگ جیپ چھوڑ کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی، اس کی جپپ سے پاک فوج کو وہ نقشے مل گئے جن سے بھارتی جارحیت کے تمام راز آشکارا ہو گئے۔یہ جیپ جی ایچ کیو کے میوزیم میں آج بھی جنگی ٹرافی کے طور پر موجود ہے۔میری تجویز ہے کہ اس جیپ کو آنے والے چھ ستمبر کو لاہور کے چیئرنگ کراس میں لا کر رکھا جائے۔میاںنواز شریف کو بھارت سے دوستی عزیز ہو گی لیکن پاکستان کے غیور شہری اپنی فوج کے کارناموں پر فخر کرتے ہیں اور انہیں چھ ستمبر کو اس کے اظہار کا پورا پورا موقع ملنا چاہئے۔اس طرح یہ ریفرنڈم بھی ہو جائے گا کہ قوم اپنے وزیر اعظم کے بھارت سے دوستی کے ایجنڈے کو کس قدر اہمیت دیتی ہے۔
بھارتی جنرل کی بڑھک پر ایک تبصرہ کرنل شفقت بلوچ نے اپنی موت سے چند روز پہلے فون پر گفتگو کرتے ہوئے میرے ساتھ کیا تھا۔انہوںنے ٹھیٹھ پنجابی میں کہا تھا: اوہ نڈھا چھ ستمبر دی شام نوںفتح دا جام پینا چاہندا سی ، میں اس نوں تن دن ہڈیارے نالے دے گندے پانی دا گھٹ وی نئیں پین دتا۔
 آٹھ روز بعد ستمبر کی جنگ کو اڑتالیس برس ہو جائیں گے ۔ جنگ ستمبر کے ہیرو ایک ایک کرکے رخصت ہو گئے۔ بریگیڈ یر عبدالقیوم شیر بھی شاید یہ غم برداشت نہیں کر پائے کہ درسی کتابوں سے نشان حیدر پانے والوں کا نام حذف کر دیا گیا ہے۔ وہ چورانوے سال زندہ رہے،شنواری قبیلے سے تعلق رکھنے والا یہ سپوت کوہاٹ کے گاﺅں جنگل خیل میں پیدا ہوا، وہ اس شہر کی مٹی میں ابدی نیند سو گیا جس کی حفاظت کے لئے اس نے دشمن کے کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔
لاہور کا معرکہ بھارت کے لئے انتہائی اہم تھا، سرحد سے قریب تر ہونے کی وجہ سے وہ اسے آسانی سے فتح کرنے کا خواب دیکھ رہاتھا۔راستے میں ایک رکاوٹ حائل تھی اور وہ تھی بی آر بی نہر۔اس کامنصوبہ یہ تھا کہ اچانک یلغار کر کے وہ پاک فوج کی دفاعی پوزیشنوں کو روندتے ہوئے لاہور کے تاریخی شہر میں داخل ہو جائے۔اس نے چوروں کی طرح سرحد پار کی۔مگر اسے ایک ناقابل شکست فوج کا سامنا کرنا پڑا۔ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر جیسے با کمال اور نڈر کمانڈر اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے،ایوب خان کو آج جتنی مرضی گالیاں دے لیں لیکن چھ ستمبر کو دن کے گیارہ بجے ریڈیو پر اس کی آواز گونجی کہ لا الہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو تو قوم کے تن بدن میں بجلیاں کوند گئیں۔یہ الگ بات ہے کہ یہی ایوب خان جب فوت ہوا تو بھٹو نے اس کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی اور یہی بھٹو ،فرانس کے مرحوم صدر جارج پومپیدو کے جنازے میں شرکت کے لئے اہتمام سے پیرس پہنچا۔ سیاسی امور پر فوج سے ہزار اختلا فات ہو سکتے ہیں لیکن مادر وطن کے دفاع پر قوم اور فوج شانہ بشانہ نہیں ہوں گے تو ہمارے دشمن خدا نخواستہ ہمیں کسی وقت بھی ڈھیر کر سکتے ہیں۔
بریگیڈئر عبدالقیوم شیرکے جسد خاکی کو پاک فوج نے پورے فوجی اعزاز سے دفن کیا ہے، انہیں ایک چا ق و چوبند دستے نے سلامی پیش کی ہے ۔اور عوام نے جوق در جوق ان کے جنازے میں شرکت کی ہے اور ان کی میت کو کندھا دیا ہے۔
 بریگیڈیر عبدالقیوم شیر کا فاتحانہ معرکہ پوری قوم کے لئے باعث فخر ہے۔ چھ ستمبر کو بھارت نے واہگہ بارڈر پر جارحیت کر کے بی آر بی نہر کے مشرقی کنارے پر قبضہ جما لیا تھا،واہگہ پوسٹ کو آزاد کرانے کا فریضہ بریگیڈیر عبدالقیوم کو سونپا گیا۔ وہ بھینی کے پل سے آگے بڑھے تو دشمن نے ان کے ایڈوانس دو ٹینکوں کو تباہ کر دیا اور چاروں طرف سے گولیوں اور بموں کی بارش کر دی، خطرہ یہ تھا کہ پاک فوج کا ایکشن رک جائے گا لیکن بریگیڈیر عبدالقیوم شیر نے ذاتی جرات، دلیری اور قائدانہ صلاحیت کی بہترین مثال پیش کرتے ہوئے حملے کی قیادت سنبھالی، ان کے جوانوںکا خون بھی جوش میں آیا، ان کی منزل ابھی پانچ چھ میل دور تھی، دشمن نے ہر طرف سے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا لیکن بریگیڈیر عبدالقیوم شیر بے خوفی سے آگے بڑھتے چلے گئے، اور انہوںنے لاہور امرتسر روڈ کو کاٹ کر دشمن کے عقب میں پوزیشن سنھال لی، یہی وہ موقع تھاجب بھارتی جنرل نرنجن پرشاد نے راہ فراہ اختیار کی ، میرے پاس اس لمحے کی تصویر موجود ہے جب پاک فوج کے جوانوںنے اس جیپ کو گھیر کر اپنے قبضے میں لیا، بھارتی فوج کے اس جنرل کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور اسے ایک روز بعد فوج کی نوکری سے نکال دیا گیا جبکہ پاک فوج کے سربراہ جنرل موسی نے اگلے مورچوں میں جاکر بہادر بریگیڈیرکے سینے پر ہلال جرات آویزاں کیا۔
 اس ہلال جرات کی تابناکی قوم کی راہیں روشن کرتی رہے گی۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر-دی نیشن