قوم کیلئے ”گھر“ کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال کا مسکن کھنڈر بن گیا
قوم کیلئے ”گھر“ کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال کا مسکن کھنڈر بن گیا
لاہور (رپورٹ: محسن گورایہ، تصاویر: اعجاز لاہوری) مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی وفات سے قبل 13 برس تک جس عمارت کو اپنی فکری ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنائے رکھا وہ عمارت آج کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے۔ جس کمرے میں تحریک پاکستان کے نامور رہنما علامہ اقبالؒ کے ساتھ گھنٹوں پاکستان کی فکر اور ایک الگ اسلامی ملک کے خدوخال زیربحث لاتے تھے وہ کمرہ آج خانہ ویران ہے۔ حکومت پاکستان نے 1958ءمیں اس تاریخی بلڈنگ کو اپنی تحویل میں لے کر عمارت کو محفوظ تو بنا دیا مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ بلڈنگ نہ تو محفوظ ہے اور نہ ہی ایسی کہ آج پاکستان کی نسل نو اور غیر ملکیوں کو دکھائی جا سکے کہ پاکستان کے مفکرین کہاں بیٹھ کر ایک الگ وطن کا خواب بنتے تھے۔ ”نوائے وقت“ نے مفکر پاکستان کی قیام گاہ کا جائزہ لیا تو حقائق کچھ یوں تھے۔ علامہ اقبالؒ نے 1922ءسے 1935ءتک اس عمارت کو اپنا مسکن بنائے رکھا اور چار کنال رقبے پر محیط یہ عمارت اس دور میں لاہور کے گورنر ہا¶س کے بعد ایسی بلڈنگ تھی جہاں سیاسی، فکری اور ادبی زعما حضرت اقبالؒ کے ساتھ نشستیں کرتے تھے۔ زمیندار اور انقلاب اور بعدازاں کوہستان اور چٹان جیسے صحافتی اداروں کے جلو میں اس بلڈنگ سے تحریک پاکستان کے زعما کی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے خادم خاص علی بخش بھی اس عمارت میں نہ صرف ان کے ساتھ رہتے تھے بلکہ ان کیلئے ایک کمرہ بھی مخصوص تھا اس کا حال بھی وہی ہے جو دوسری عمارت کا ہے۔ اس بلڈنگ پر اقبال اکیڈمی قائم کی گئی تھی جو بعدازاں ایک پرشکوہ عمارت میں منتقل ہو گئی مگر اقبال اکیڈمی کا بورڈ آج بھی اس عمارت پر آویزاں ہے اور اب یہاں پر اقبالؒ کی اور ان پر لکھی گئی کتابوں کا سیل ڈپو بنا دیا گیا ہے۔ 1958ءمیں عمارت محفوظ کا درجہ دینے کے بعد حکومت پاکستان کا فرض تھا کہ تاریخی عمارات کی طرح اس عمارت کو بھی اس کے شایان شان خوبصورت بنا کر نئی نسل اور غیر ملکیوں کے دیکھنے کیلئے قابل دید بنا دیا جاتا تاکہ نئی نسل اس بلڈنگ کے مکین اور دوسرے وزٹرز کے افکار اور سرگرمیوں کے متعلق جان سکتے جو علامہ اقبالؒ نے اس عمارت میں 13 سال رہائش کے دوران انجام پائیں۔ آج اگر کوئی اس بلڈنگ کو ڈھونڈنا چاہے تو ڈھونڈ نہیں سکتا اور اگر ڈھونڈ لے تو کسی دوسرے کو دکھا نہیں سکتا کہ یہ ہمارے پرکھوں کا مسکن تھا۔ محکمہ آثار قدیمہ یا پھر اب وزارت قومی ورثہ جس کا یہ حصہ ہے نے آج تک اس پر توجہ ہی نہیں دی آج اگر اس بلڈنگ میں کوئی جانا چاہے تو اسے ایک ٹوٹی ہوئی گلی میں موٹرسائیکل کی ورکشاپوں اور فرنیچر بنانے کی دکانوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے اور اگر بارش کا موسم اور بارش ہوئی ہو تو پھر اس قومی ورثہ کی عمارت میں جانے کیلئے کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی ورثہ کی اس عمارت کو محفوظ بنا کر نئی نسل اور سیاحوں کیلئے مخصوص کر دیا جئاے۔ نوائے وقت کی ٹیم وہاں پہنچی تو وہاں موجود سیلز آفیسر سید شوکت علی نے بتایا کہ بلڈنگ کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر 1989ءمیں اس کی چھتیں تبدیل کر دی گئی تھیں مگر باقی معاملات ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ آج یہاں پر اقبال اکیڈمی کی کتابوں کا سیل ڈپو ہے اور ہم اقبال کے افکار اور حالات پر مبنی کتابیں پوری دنیا میں پہنچا رہے ہیں۔ یہاں پر اقبال کے اوپر لکھی گئی کتابیں 32 زبانوں میں ترجمہ کی گئی ہیں۔