کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال قبول نہیں‘ شام کیخلاف محدود فوجی کارروائی پر غور کر رہے ہیں : اوبامہ
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال قبول نہیں‘ شام کیخلاف محدود فوجی کارروائی پر غور کر رہے ہیں : اوبامہ
دمشق، لندن، نیو یارک، (اے ایف پی+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) فرانس کے صدر نے 4 ستمبر بدھ تک شام پر حملے کی ڈیڈ لائن دیدی، جبکہ برطانوی پارلیمنٹ میں شکست کے بعد ڈیوڈ کیمرون بھی حملے میں شرکت سے انکاری ہو گئے۔ ادھر جرمنی اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے بھی شام کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کر دیا ہے۔ جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ ناقابل معافی ہے اور شام کو اس کی سزا ضرور ملے گی۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیار استعمال کر کے بچوں اور خواتین کو قتل کرنا کسی صورت قبول نہیں۔ شام کے خلاف محدود پیمانے پر فوجی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔ کیمیائی حملے دنیا کے لئے چیلنج ہیں اس سے اسرائیل اور اردن جیسے اتحادیوں کو خطرہ ہے۔ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے امریکی قومی سلامتی کو خطرہ پیدا ہوا۔ وزیر خارجہ جان کیری نے شام بحران پر پالیسی بیان میں کہا ہے کہ شام میں عراق والا تجربہ نہیں دہرائیں۔ 21اگست کا کیمیائی حملہ شامی حکومت نے کیا تھا جس میں 1429 شہری ہلاک ہوئے۔ 426بچے بھی جان سے گئے تھے۔ اقوام متحدہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کیمیائی ہتھیار کس نے استعمال کئے۔ صدر اوباما شامی بحران پر امریکی عوام کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔ ڈنمارک کے دورے پر موجودہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسین نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ شام کی حکومت شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے حملے میں ملوث ہے۔ اس پر سخت بین الاقوامی ردعمل ہونا چاہئے لیکن نیٹو فورسز شام پر حملے کا حصہ نہیں بنیں گی اور نہ ہی ہمارا کوئی کردار ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ حملے کے بغیر بھی حل ہو سکتا ہے۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ شام کی صورتحال پر فرانس بشارالاسد حکومت کے خلاف منظم اور جامع کارروائی چاہتا ہے تاہم کوئی بھی کارروائی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں ہو گی۔ دریں اثناءاقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے مبینہ کیمیائی حملے کے نمونوں پر کام مکمل کر لیا۔ اقوام متحدہ ترجمان کے مطابق ماہرین مبینہ کیمیائی حملے سے متعلق شواہد کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جبکہ شام کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے جانبدارانہ رپورٹ آئی تو اس کو مسترد کر دیا جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام کی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ کے وزیر دفاع چک ہیگل کا کہنا تھا کہ صدر براک اوباما کے جانب سے شام پر حملے کے احکامات کی صورت میں امریکی افواج حملے کے لئے تیار ہیں۔ علاوہ ازیں بانکی مون نے گذشتہ روز سلامتی کونسل کے مستقل ممالک کے نمائندوں سے ملاقات کی اور رپورٹ آنے تک حملے نہ کرنے کا کہا۔ ادھر اوباما نے بھی شام کے خلاف ممکنہ کاروائی کے حوالے سے قومی سلامتی کے مشیروں سے ملاقات کر کے انہیں آئندہ کے پلان سے آگاہ کیا۔ کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا نے بھی فوجی کارروائی کی حمایت کی ہے ادھر شامی حکومت نے ممکنہ حملے کے پیش نظر اپنے دفاتر اور سکولوں کو جامعات میں منتقل کر دیا۔ امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی جنگ کے خلاف مظاہرے کئے گئے۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ شام میں فوجی کارروائی کی ضرورت نہیںہے۔ علاوہ ازیں چین کے وزیر خارجہ نے فرانسیسی ہم منصب سے ملاقات کر کے صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا ادھر پولینڈ کا کہنا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا انبار لگانے کا ذمہ دار روس ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ شام میں برطانوی مداخلت مسترد ہونے کے باوجود وہاں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کا بھرپور جواب دینا ضروری ہے۔ دریں اثناءامریکی حکام کا کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام کے خلاف محدود پیمانے پر فوجی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔ یہ فوجی کارروائی شام میں اقتدار کی تبدیلی کے لئے نہیں ہو گی۔ ترکی کا بھی کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شامی حکومت نے باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ جان کیری کا کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام کے خلاف فوجی ایکشن لینے کے حوالے سے عالمی ناکامی سے ایران اور حزب اللہ مزید بہادر ہو جائیں گے۔