مذاکراتی عمل شروع ہو گیا : سرکاری اہلکار....ابتدائی رابطوں میں کئی مسائل پر بات ہوئی : طالبان عہدیدار
مذاکراتی عمل شروع ہو گیا : سرکاری اہلکار....ابتدائی رابطوں میں کئی مسائل پر بات ہوئی : طالبان عہدیدار
اسلام آباد (نیٹ نیوز + بی بی سی + آن لائن) حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔ طالبان نے ان ابتدائی رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابتدائی مذاکرات کئی مسائل پر ہوئے جن میں ملک میں فرقہ وارانہ حملوں کو روکنا، القاعدہ اور لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں سے تعلقات منقطع کرنا شامل تھے۔ ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے بی بی سی سے گفتگو کے دوران حکومت اور پاکستانی طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے پہلے ہی فائدہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس حوالے سے بہت سا ہوم ورک پہلے ہی کر لیا تھا۔ تاہم اہلکار نے اس سے زیادہ تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کہ مذاکرات سے کس قسم کا فائدہ ہونا شروع ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے دوسرے اعلیٰ رہنما مولوی ولی الرحمان کی ہلاکت سے مذاکراتی عمل کو جو نقصان پہنچا تھا اس کا منفی اثر اب زائل کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد کافی تگ و دو کے بعد مذاکراتی رابطے دوبارہ بحال کر دئیے گئے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے طالبان سے رابطوں کی تصدیق کی ہے۔ مبصرین کے خیال میں فائدہ ہونے سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ حکومت طالبان کو کسی حد تک کارروائیاں روکنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن ابھی یہ رابطے لگتا ہے ابتدائی مرحلے میں ہیں کیونکہ حکومت انسداد دہشت گردی کی جامع قومی پالیسی بھی تیار کر رہی ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اس پالیسی پر قریباً تمام بڑی جماعتوں سے مشاورت جاری ہے اور اسے حتمی شکل دے کر آئندہ چند ہفتوں میں اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے مذاکرات ہی ان کی پہلی آپشن ہو گی۔ اسلام آباد میں مغربی سفارتی حلقے کہتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف اور فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اس بات پر متفق ہیں کہ شدت پسند اگر پاکستانی ریاست و آئین کی بالادستی اور جنگ بندی پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو بات چیت ہو سکتی ہے۔ ایک سفارت کار کا کہنا تھا کہ یہ وہ سرخ لکیر ہے جس کی خلاف ورزی دونوں کو قابل قبول نہیں۔ ایک سرکردہ طالبان اہلکار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابتدائی مذاکرات کئی مسائل پر ہوئے جن میں فرقہ وارانہ حملے روکنا، القاعدہ اور لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں سے تعلقات منقطع کرنا شامل تھا۔ بی بی سی کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان مخالف گروہوں پر دباو¿ ہے کہ وہ اسلام آباد کے ساتھ امن معاہدہ کر کے آئندہ برس افغانستان میں نیٹو افواج کے بعد کے لئے تیار کرنا ہے۔ سرکاری اہلکار سے جب دریافت کیا گیا کہ ماضی کے مذاکرات سے یہ بات چیت کس طرح مختلف ہے تو ان کا کہنا تھا کہ آپ خود دیکھ لیں گے۔ مبصرین کے خیال میں فائدہ ہونے سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ حکومت طالبان کو کسی حد تک کارروائیاں روکنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ طالبان کا کوئٹہ کی پولیس لائن میں نماز جنازہ میں خودکش حملہ ایسا بڑا آخری حملہ تھا جس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اس پالیسی پر تقریباً تمام بڑی جماعتوں سے مشاورت جاری ہے اور اسے حتمی شکل دے کر آئندہ چند ہفتوں میں اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے مذاکرات ہی ان کی پہلی آپشن ہو گی۔ بی بی سی کے مطابق طالبان کو مذاکرات کی پیشکش پہلے ہی تحریک طالبان میں دراڑیں ڈال چکی ہے۔ پنجابی طالبان کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ نے بائیس اگست کو نوازشریف کی پیشکش کا خیرمقدم کیا تھا لیکن تحریک کی مرکزی قیادت اس سے خوش نہیں تھی۔ اس کا خیال ہے کہ کسی خیرمقدم سے قبل انہیں پاکستانی حکومت کے اقدامات پر محتاط انداز میں نظر رکھنی ہو گی۔ عصمت اللہ معاویہ کی جنود حفصہ تحریک طالبان کی واحد اتحادی نہیں جس نے حکومت کی جانب نرم رویہ دکھایا ہے۔ جنوبی وزیرستان میں مولوی نذیر، شمالی وزیرستان میں گل بہادر اور حقانی نیٹ ورک ایسے گروہ ہیں جو پاکستان سے متعلق پہلے ہی تحریک سے قدرے مختلف پالیسی رکھتے ہیں۔ واضح رہے وزیراعظم نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت کے پاس دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ایک سے زائد راستے موجود ہیں مگر دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا راستہ اختیار کیا جائے جس میں مزید معصوم انسانی جانیں ضائع نہ ہوں۔ ہر پاکستانی کی طرح آگ اور خون کے اس کھیل کا جلد سے جلد خاتمہ چاہتا ہوں، چاہے یہ خاتمہ افہام و تفہیم کی میز پر بیٹھ کر ہو یا پھر بھرپور ریاستی قوت کے استعمال سے ہو اور پاکستان کے تمام ادارے کسی تقسیم اور تفریق کے بغیر اس قومی مقصد پر یکسو ہیں۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے بھی جمعرات کو وزیراعظم سے ملاقات میں طالبان سے مذاکرات میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ دریں اثناءپارلیمنٹ ہا¶س کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان سے مذاکرات پر متفقہ رائے کے سلسلے میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یکجا ہو رہی ہے، وزیراعظم جلد ہی اس معاملے پر مقتدر سیاسی شخصیات کو اعتماد میں لیں گے اور مذاکرات کا عمل شروع ہو جائے گا۔ ملاقات میں وزیراعظم نے اس بات کا اشارہ دیا کہ مذاکرات میں حکومت اور طالبان ہی فریقین ہیں مذاکرات کا خاکہ تیار ہو چکا ہے۔حکومت اور اسٹیبلشمنٹ طالبان مذاکرات میں ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ اس سلسلے میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے۔ طالبان سے مذاکرات آگے بڑھانے کیلئے حکومت تمام سیاسی پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل مشاورتی فورم قائم کر رہی ہے۔
طالبان / مذاکرات