کراچی میں سومنات کا بت اور ”مکتی باہنی“
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی میں کہا ہے کہ لیاری سومنات کا بت نہیں ہے جسے فتح نہ کیا جا سکے۔ ایک زمانے میں سومنات کے بت کو فتح کیا جا چکا ہے۔ یہ بات بھی ہے کہ اب ہم کمزور مفاد پرست اور مصلحت اندیش ہیں کچھ کر نہیں سکتے۔ اس سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ ہم کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے اور یہ بھی سچ ہے کہ ہمیں کچھ کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ ہمارے حکمران بے بسی اور بے حسی کی تصویر بن کر ایوانوں میں لٹکے ہوئے ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں کچھ نہیں ہوا۔ اگلے پانچ سالوں میں بھی کچھ نہیں ہو گا۔ جب سندھ حکومت اور وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کے پاس تھی ایم کیو ایم اور اے این پی دونوں حکومت میں شامل تھیں۔ اب سندھ میں پھر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ جب صدر زرداری نے سندھ کا وزیر اعلیٰ پھر قائم علی شاہ کو بنا دیا تو ثابت ہو گیا تھا کہ وہ کراچی میں وہی حالات رکھنا چاہتے ہیں جو تھے۔ اب نواز شریف کی حکومت کراچی کے لئے وہی کردار ادا کرنا چاہتی ہے جو صدر زرداری حکومت نے کیا تھا۔
چیف جسٹس پہلے بھی اور اب بھی مسلسل خبردار کر رہے ہیں مگر ہم ٹی وی چینلز کی خبروں پر یقین رکھتے ہیں۔ باخبر رہنے کے جنون میں ہمیں خبریں بنانے اور خبریں اڑانے کی مجبوری نبھانا پڑتی ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار کی کارکردگی وہی ہے جو رحمان ملک کی تھی۔ اس ملک میں صرف رحمان ملک چودھری نثار کی تعریف کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کراچی کے لہولہان علاقے کو سومنات کا بت کہا ہے تو ٹھیک کہا ہے۔ یہ بات بہت ذومعنی ہے۔ کراچی میں ہندو ملک بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ پوری طرح سرگرم ہے۔ وہاں قتل و غارت کی گرما گرمی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کراچی میں بھارتی ”را“ کی سرپرست امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی ”موساد“ ہے۔ وہاں برطانیہ کی خفیہ ایجنسی جو کچھ کر رہی ہے سب کے سامنے کر رہی ہے۔ وہاں حکومت جو کچھ کر رہی ہے خفیہ طور پر کر رہی ہے۔ اس کے لئے ایک حسب حال لطیفہ عرض کر رہا ہوں۔
ایک انسپکٹر سکولز نے تعلیمی ادارے کا دورہ کیا۔ پہلے زمانے میں انسپکٹر پولیس کے علاوہ تعلیم و تدریس میں بھی انسپکٹر ہوتے تھے۔ وہ وہی کچھ کرتے تھے جو انسپکٹر پولیس کرتے ہیں۔ آج کل یہ کام کمیٹیوں کے سربراہ اور فیڈریشن کے سربراہ کرتے ہیں جنہیں حکمران تعینات کرتے ہیں۔ ان میں آرٹس کونسلوں کے چیئرمین بھی آتے ہیں۔ کوئی ذاتی کالم نگار اس عہدے پر لگ جائے تو لگ پتہ جاتا ہے۔
انسپکٹر صاحب ایک کلاس روم میں گھس گئے۔ وہاں سب سے خوفزدہ بے چارہ ماسٹر صاحب ہوا۔ ہیڈ ماسٹر انسپکٹر کے ساتھ تھا۔ انسپکٹر نے اپنی تاریخی معلومات کی دھاک بٹھانے کے لئے سوال کر دیا سومنات کا بت کس نے توڑا تھا۔ استاد جی کی ہدایت کے مطابق ساری کلاس کے طالب علموں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے۔ معلوم ہوا کہ ہاتھ کھڑے کرنے کا مطلب سرنڈر کرنا تھا کہ ہم پر حملہ نہ کر دیا جائے۔ انسپکٹر خوش ہوا کہ بڑی لائق کلاس ہے۔ ایک لڑکے سے پوچھ لیا تو وہ کھڑا ہو کے زار و قطار رونے لگ گیا۔ خدا کی قسم میں نے سومنات کا بت نہیں توڑا۔ انسپکٹر نے استاد جی کی طرف دیکھا تو اس نے کہا کہ جناب عالی یہ لڑکا بہت شرپسند اور کام چور ہے۔ سومنات کا بت اس نے ہی توڑا ہو گا۔ انسپکٹر کو بہت غصہ آیا تو ہیڈ ماسٹر ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور عرض کی کہ جناب سومنات کا بت ٹوٹنے والی چیز تھی ٹوٹ گئی اب مہربانی فرمائیں اور بچے کو معاف کریں۔
یہاں مجھے کراچی کے ہی ایک نامور ملنگ شاعر جون ایلیا کا ایک شعر یاد آیا
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
مگر اس میں سومنات کا بت نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ حکومت پولیس اور رینجرز اس کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔ سنا ہے اس خدمت کے لئے بہت پیسے بھی ملتے ہیں۔ میں نے تو یہ بھی لکھا تھا کہ فوج کو اپنی سیاسی ضرورت کے لئے بلایا جا رہا ہے یہ تو نہیں کہ بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد ”مکتی باہنی“ کا روپ اختیار کر لیں۔ مشرقی پاکستان میں فوج کے جانے کے بعد بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ملک کو بچا لیا گیا ہے۔ کیا ملک کو اسی طرح بچانے کا اہتمام تو نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہندو پرانی رسوائیوں کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ اس کے لئے مکمل کالم کی ضرورت ہے۔
پچھلے کالم میں کسی کوتاہی کے سبب برادرم شعیب بن عزیز کا پورا شعر نہیں لکھا جا سکا جبکہ یہ جملہ بھی موجود ہے کہ اب آپ شعیب بن عزیز کا شعر سنیں مگر نیچے صرف ایک مصرعہ لکھا گیا ہے
ہمیں یہ خاک نشینی ملی ہے نسل بہ نسل
عجیب عجز ہے جس میں نسب ملا ہوا ہے