پاکستان سے کمٹ منٹ والا وائس چانسلر
پاکستان سے کمٹ منٹ والا وائس چانسلر
میںنے ڈاکٹر مجاہد کامران کو ان کے والد سید شبیرشاہ کی ذات میں جھانک کر پہچانا۔
ڈاکٹر صاحب فزکس کے طالب علم اور استاد تھے، وہ ایک زمانے میں ٹیکنالوجی پر اردو میں عام فہم مضامین لکھتے تھے، میں ان دنوں نوائے وقت کا میگزین ایڈیٹر تھاا ور میرے لئے یہ خوشگوار حیرت کی بات تھی کہ اردو میں بھی سائنسی موضوعات پر کوئی لکھنے والا موجود ہے۔ان کی زبان نہایت سلیس ہوتی تھی اور مجھے ان کے مضامین کا انتظا ررہتا تھا۔
کوئی چالیس برس کے وقفے سے ان سے ملاقات ہوئی اورانہیں سننے کاموقع ملا۔سائنس کی طرف وہ ایک لمحے کے لئے بھی نہیں آئے ، سارا زور کلام انٹرنیشنل افیئرز پر تھا۔پاکستان کی نظریاتی اساس پر ان کا محکم یقین تھا ، تب مجھ پر یہ راز کھلا کہ انہوں نے محترم مجید نظامی کو ڈاکٹر مجیدنظامی کیوں بنایا۔
وہ بڑے تیقن سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان مملکت خداداد ہے اور یہ قائم و دائم رہنے کے لئے عطیہ خداوندی کے طور پر ہمیں ملا ہے، اس کی طرف بری نظریں بہت اٹھ رہی ہیں لیکن اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔
مگر خودانہوںنے چند کتابیں ایسی لکھ ماری ہیں جن کی وجہ سے امریکہ انہیں کم از کم سزا یہ دے سکتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ کی سیٹ سے ہٹوا دے اور ساتھ ہی ان کے لئے امریکی اور یورپی ویزہ کے حصول کے دروازے بند کردے، ان کی جرات رندانہ کی زیادہ سے زیادہ سزا یہ ہو سکتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو تو واپس کر دیا جائے لیکن انہیں اچک کر گوانتا نامو بے پہنچا دیا جائے ، ڈاکٹر مجید نظامی بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر ضروری ہو تو وہ وہ کشمیر کو ایٹمی طاقت سے آزادکروانا چاہتے ہیں یہی جنون ڈاکٹر مجاہد کامران کے ذہن پر بھی چھایا ہوا ہے، انہوںنے ایسی کتابیں لکھ ماری ہیں جن سے امریکی استعماری ہتھکنڈے فاش ہو گئے ہیں ۔
ایک نکتہ جسے سمجھ لیا جائے تو دنیا میں جاری جنگوں اور کشمکش پیہم کے بھید تک پہنچا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے چند بنک تمام متحارب فریقوں کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔انہی بنکوں یا ان کے مالکان کے ہاتھ میں طاقت کی کلید ہے۔ وہ جسے چاہیں امریکی صدر بنوا دیں یا چاہیں تو اسے مروا دیں۔جس ملک میں چاہیں، شورش بھڑکا دیں ، حکومت کا دھڑن تختہ کر دیں یا اپنے کسی آلہ کار اور پٹھو کو تاج وتخت کا مالک بنوا دیں۔شاہ کو گدا یا گدا کو شاہ کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔دنیا میں اقوام متحدہ سے بڑا ادارہ کونساہو سکتا ہے، اس کو دفتر کی تعمیر کے لئے زمین کا قطعہ ایک فرد واحد راک فیلر نے عطیہ میں دیا۔اب اس ادارے میں راک فیلر خاندان کو کیا اثرو رسوخ حاصل ہو گا ، اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔
حالات حاضرہ پر کونسی کتاب چھپی ہے، کس نے لکھی ہے اور کس ادارے نے اس کی تحقیق کو اسپانسر کیا ہے، یہ معلومات کسی لائیبریرین کے پاس ہونی چاہیئں مگر ڈاکٹر مجاہد کامران فر فر ان پر گفتگو کر سکتے ہیں اور وہ بھی گھنٹوں، کسی لمحے بوریت کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ موضوع میں چاشنی بھرنے کا فن کوئی ان سے سیکھے۔مزے کی بات یہ ہے کہ تازہ تریں کتابیں یونیورسٹی کی لائیبریری میں موجود ہوتی ہیں ۔علامہ علاﺅ الدین صدیقی کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں علمی اور تحقیقی ماحول کے احیا پر انسان فرط مسرت سے جھوم جاتا ہے۔اس سیٹ پر فوجی جرنیل بھی آئے، انہوںنے جو سلوک ملک کے ساتھ روا رکھا، اس سے بدتر سلوک اس شاندار ماضی کے حامل ادارے کے ساتھ کیا۔تعلیم و تحقیق کے بجائے یہاں بھینسوں کا چارہ کاشت کیا جانے لگا۔
جنرل اسلم بیگ کا ذکر اکثر کرتا ہوں، انہوںنے ضرب مومن کے نام سے جنگی مشقیں کیں ، جنرل حمید گل ا ن مشقوں کے انچارج تھے ، لاہور میں آئی ایس پی ا ٓر کے سربراہ کرنل سفیر تارڑ ایڈیٹروں اور کالم نگاروں کا ایک قافلہ لے اس میں شریک ہوئے، کراچی، اسلام آباد اور پشاور سے بھی نامور صحافتی شخصیات آئی تھیں، ہم سب کو جنرل ریاض اللہ مرحوم نے مدعو کیا تھا ، فوج کی طرف سے پی آر کی اس سے بڑی مشق میںنے آج تک نہیں دیکھی۔۔یہیں پر میری ملاقات پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر سید شبیر شاہ سے ہوئی۔ ان کے ایک بھائی سید سرور شاہ ہمارے ساتھ دی نیشن میں کام کرتے تھے مگر ہمیشہ چپ چپ،ان کے برعکس شبیر شاہ ہنس مکھ اور کھلے مزاج کے انسان تھے، میڈیا ٹیم میں ان کی بے تکلفی تو ضرب المثل بن گئی۔اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ ڈاکٹر مجاہد کامران ان کے بیٹے ہیں۔ابھی حال ہی میں یونیورسٹی میں ایک تقریب ان کی نسبت سے ہوئی تو سید شبیر شاہ کی یادیں ذہن کے افق پر امڈ آئیں۔ میں نے ڈاکٹر مجاہد کامران سے پوچھا کہ حالات حاضرہ پر اس قدر عبور آپ کو کیسے ہوا اور یہ امنگ کیسے بیدار ہوئی، کہنے لگے، یہ والد بزرگوارکی صحبت اور تربیت کا فیض ہے۔ گھر میں علمی ماحول میسر آیا اور یہ سب ا سی کی دین ہے۔یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی، سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی۔
میں ان کی سیرحاصل گفتگو سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ ڈاکٹر مجاہد کامران کس کارنامے کی بنا پر تاریخ میں زندہ رہیں گے۔بہت سے کارنامے گنوائے جا سکتے ہیں،مگر پاکستان کے ساتھ وہ جس نظریاتی کمٹ منٹ کے مالک ہیں اور جس کا سب سے بڑا اظہار انہوں نے محترم مجید نظامی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری پیش کر کے کیا، وہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ مجید نظامی کو اس ڈگری کی ضرورت نہ تھی، وہ تو اس اعزاز سے بلند تر تھے لیکن پی ایچ ڈی کی ڈگری کو ان کے نام نامی سے منسوب ہو کر ایک نئی عزت ملی،نیا وقار ملا، نیا مقام حاصل ہوا۔اسی طرح پنجاب یونیورسٹی کے کئی وائس چانسلر آئے اور گئے مگر ڈاکٹر مجاہد کامران نے اپنے علم اور فضیلت سے اس منصب کو نئی شان دی۔یونیورسٹی میں علمی ماحول روشناس کرایا اور سیاست گردی کا نام و نشان مٹا دیا۔اب یہاں لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے بجائے پی ایچ ڈی کی ڈگریوںکا دور دورہ ہے۔طالب علموں کے ماتھے، مار پٹائی سے زخم زخم نہیں ، علم کے نور سے درخشاں اور تاباں ہیں۔
دنیا میں نیا استعمار حاوی ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔عالم اسلام کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، اس کے لئے ہمارے ہی لوگوں کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، عالم اسلام کے وسائل اور تیل کی بے بہا دولت پر ان کی حریصانہ نظریں جمی ہیں۔ وسط ایشیا کو گھیرے میں لیا جا رہا ہے، یہ سب کچھ جاننے کے لئے ڈاکٹر مجاہد کامران سے ملئے، ان کے ذہن کا انسائیکلو پیڈیا خود بخود کھلتاچلا جائے گا، وہ آپ کو یقین اور عزم کے ایک جذبے سے بھی سرشار کرتے ہیں۔