پنجاب اسمبلی، گندم کی امدادی قیمتوں کے معاملے پرارکان تقسیم
لاہور (سپیشل رپورٹر+ خبرنگار+ نیوز رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں ارکان اسمبلی نے گندم کی امدادی قیمت پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری گندم کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ فصل نقصان دیتی ہے اور کاشتکار منافع والی فصلوں کی طرف متوجہ ہوتے جا رہے ہیں تاہم امدادی قیمت کے معاملے پر اکان اسمبلی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے، ارکان اسمبلی کا خیال تھا کہ امدادی قیمت نہ بڑھائی جائے تاہم کاشتکاروں کو بجلی، کھاد اور بیج میں سبسڈی دی جائے کیونکہ اگر امدادی قیمت بڑھائی گئی تو کاشتکار کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ مڈل مین کے پرافٹ میں اضافہ ہو جائے گا۔ تاہم بعض ارکان اسمبلی کا خیال تھا کہ امدادی قیمت بڑھانے کے ساتھ ساتھ حکومت کاشتکار کو سبسڈی فراہم کرے ان کو سستے ٹریکٹر دئیے جائیں بجلی کا فلیٹ ریٹ دیا جائے۔ زرعی ادویات اور بیج سستا دیا جائے۔ تاہم ارکان اسمبلی فی ایکڑ پیدوار، جعلی ادویات کے خاتمے کے لئے ایک بات پر متفق تھے ریسرچ پر زیادہ زور دیا جائے۔ گندم کی امدادی قیمت کی تجاویز میں عام بحث کے دوران رکن اسمبلی ڈاکٹر وسیم اختر نے کہاکہ یوریا کی قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہے۔ کسان کو ریلیف دینے کیلئے گندم کی قیمت 14سو ورپے فی من قیمت مقرر کی جائے۔ رکن اسمبلی میاں رفیق نے کہا کہ اس وقت کاشتکار طبقہ جو زراعت سے وابستہ ہے اس کا 92فیصد مہنگائی کی وجہ سے پس رہا ہے۔ ہمارے حصے کے 3دریاﺅں پر بھی بھارت اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے، پانی کے بغیر کاشتکاری ممکن نہیں اس لئے آبی ذخائر کی تعمیر شروع کی جائے۔ زراعت کا شعبہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن نے کہا کہ جب تک زراعت کے شعبے کو انڈسٹری قرار نہیں دیتے تب تک ترقی ممکن نہیں ہو گی۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن احمد خان نے کہا کہ ہمارے پاس کسی بھی فصل کا ریکارڈ رکھنے کا میکنزم نہیں ہے۔ گندم کے شعبے میں کاشتکار کا شدید استحصال ہو رہا ہے۔ مناظر علی رانجھا نے کہا کہ گندم کی قیمت کو بڑھانا بہت ضروری ہے۔ گندم کے بیج پر ریسرچ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی فی ایکڑ پیداوار بڑھ نہیں رہی۔ رمیش اوڑا سنگھ نے کہا کہ ریسرچ تو ہو رہی ہے مگر اس ریسرچ پر عمل درآمد نہیں ہوتا تب تک نتائج بہتر نہیں ہو سکتے۔ زراعت کی ترقی کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو تجاویز دیں اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ رکن اسمبلی احمد شاہ کھگھا نے کہاکہ گندم باہر کے ملک بھجوانے سے ملک میں آٹے کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی بہتر پیداوار اور کم لاگت کاشت کیلئے ڈی اے پی، ڈیزل، اجناس سمیت دیگر ان پٹس کو کم کر دیا جائے۔ الیاس منظور چنیوٹی نے کہاکہ گندم کی بہتر پیداوار کی وافر مقدار میں بہتری کیلئے ان پٹس کی قیمتوں میں کمی کی جائے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو فوری کیا جائے کیونکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے سے بھارت ہمارے آبی ذخائر پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سپیکر نے الیاس منظور چنیوٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ آپ لوگوں کو سندھ اور خیبر پی کے بھجواتے ہیں تاکہ وہاں کے لوگوں کے تحفظات کو دور کیا جائے۔ صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے کہا کہ گندم کی قمیت پر تجاویز اور عام بحث کو سمیٹتے ہوئے کہاکہ گندم کی بہتر پیداوار اس لئے بہتر ہوتی ہے کہ ریسرچ سنٹرز سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں ٹیوب ویل کیلئے جلد فلیٹ ریٹس کا اعلان جلد کیا جا رہا ہے۔ گندم کی امدادی قیمت طے کرنا وفاق کا کام ہے۔ صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے کہاکہ اگر گندم کی امدادی قیمت بڑھتی ہے تو کوشش کی جائے گی کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جائے۔ تمام ان پٹس پر سبسڈی کی بات اور تجاویز پر غور کرکے بہتر فیصلہ کیا جائے گا۔ دریں اثناءوزیر خوراک بلال یاسین نے کہا ہے کہ مردہ اور بیمار جانوروں کا گوشت نہیں بک رہا۔ مذبحہ خانے میں اگر کوئی جانور بیمار پایا جائے تو اس کا گوشت ضائع کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا گوشت اور دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں دسواں نمبر ہے۔ وہ گذشتہ روز پنجاب اسمبلی میں ارکان اسمبلی کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ بلال یاسین نے کہا کہ کٹا بچاﺅ پروگرام کے تحت 6ماہ جانور پالنے پر 3200روپے فی جانور اور جانور خرید پروگرام کے تحت 4ماہ جانور پالنے پر حکومت 1500روپے فی جانور لائیو سٹاک فارمز کو ادا کر رہی ہے۔ کٹا بچاﺅ پروگرام کے تحت 1153لائیو سٹاک فارمز رجسٹرڈ کئے گئے جن میں جانوروں کی تعداد 26170ہے۔ ان فارمز کو 6کروڑ 64لاکھ 91ہزار روپے تقسیم کئے گئے۔ مذبحہ خانے میں بیمار جانور کے حلال کرکے گوشت شہریوں کو سپلائی کرنا ممکن نہیں ہے۔ غیرسرکاری مذبحہ خانوں میں چوری چھپے فروخت ہونیوالے جانوروں کے حوالے سے بینر آویزاں کئے گئے ہیں۔ پنجاب میں 22لائیو سٹاک فارم ہیں۔ جن میں سے 4، 1973ءسے لیز پر دئیے ہوئے ہیں۔ انہیں واپس لینا آسان نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وزیر خوراک بلال یاسین نے وقفہ سوالات میں سپیکر رانا محمد اقبال خان کی طرف سے سوالات کی طرف دھیان دینے کی ہدایات پر سپیکر کو جواب میں کہاکہ ”سننے کیلئے دیکھنا ضروری نہیں ہے، میں سن رہا ہوں“۔ سپیکر رانا محمد اقبال خان نے جب بلال یاسین کو ہدایت کی تو وہ ایک رکن اسمبلی کی طرف مڑ کر دیکھ رہے تھے۔