حکومت کے طالبان سے مذاکرات
وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ حکومت طالبان کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر رہی ہے ہمیں ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلانا ہو گی جس کیلئے ہرممکن ذرائع اور آپشنز استعمال کئے جائینگے۔ پرویز رشید نے کہا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان غیر سرکاری سطح پر خفیہ بات چیت جاری ہے۔ ہمیں اس ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلانا ہو گی۔ جس کیلئے ہرممکن ذرائع اور آپشنز استعمال کئے جائینگے۔ وفاقی حکومت نے طالبان کے دو گروپوں سے مذاکرات شروع کرنے کی تصدیق کر دی ہے اور کہا کہ ہم ہر گروپ سے بات چیت کیلئے تیار ہیں تاہم اس مذاکراتی عمل میں کوئی اپوزیشن لیڈر شریک نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امن فارمولہ کی تیاری کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ حکومت اور طالبان کے درمیان غیر رسمی رابطوں میں پیشرفت ہوئی ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ طالبان سے فی الوقت کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہو رہے یہ ایک انتہائی حساس اور پیچیدہ مسئلہ ہے ہم نے اپنی پالیسی اور حکمت عملی طے کر لی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر اس پر عمل شروع کیا جائیگا۔ ان کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات تو ہو رہے ہیں لیکن باضابطہ نہیں ہو رہے۔ پاکستان کے ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے حکومت اور پاکستانی طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان مذاکرات سے پہلے ہی فائدہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس بابت بہت سا ہوم ورک پہلے ہی کر لیا تھا۔ امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے دوسرے اعلیٰ رہنما مولوی ولی الرحمان کی ہلاکت سے مذاکراتی عمل کو جو نقصان پہنچا تھا اسکا منفی اثر زائل کر دیا گیا اسکے بعد کافی تگ و دو کے بعد مذاکرات رابطے دوبارہ بحال کر دئیے گئے ہیں۔ ایک سرکردہ طالبان اہلکار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابتدائی مذاکرات کئی مسائل پر ہوئے جن میں سے ایک پاکستان میں فرقہ ورانہ حملوں کو روکنا اور القاعدہ اور لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں سے تعلقات منقطع کرنا شامل تھا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مخالف گروہوں پر دباﺅ ہے کہ وہ اسلام آباد کے ساتھ امن معاہدہ کر کے آئندہ برس افغانستان میں نیٹو افواج کے بعد کے حالات کیلئے تیار کرنا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کی حکومت نے طالبان سے رابطوں کی تصدیق کی ہے۔ مبصرین کے خیال میں فائدہ ہونے سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ حکومت طالبان کو کسی حد تک کارروائیاں روکنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن ابھی یہ رابطے سے پتہ لگتا ہے یہ ابتدائی مرحلے میں ہیں کیونکہ حکومت انسداد دہشت گردی کی جامع قومی پالیسی بھی تیار کر رہی ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اس پالیسی پر تقریباً تمام بڑی جماعتوں سے مشاورت جاری ہے اور اسے حتمی شکل دے کر آئندہ چند ہفتوں میں اس کا اعلان کر دیا جائیگا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے مذاکرات ہی انکی پہلی آپشن ہو گی۔ اسلام آباد میں مغربی سفارتی حلقے کہتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف اور فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اس بات پر متفق ہیں کہ شدت پسند اگر پاکستانی ریاست و آئین کی بالادستی اور جنگ بندی پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو بات چیت ہو سکتی ہے۔
ایک سفارت کار کا کہنا تھا کہ وہ سرخ لکیر ہے جس کی خلاف ورزی دونوں کو قابل قبول نہیں۔ طالبان کو مذاکرات کی پیشکش پہلے ہی تحریک طالبان میں دراڑیں ڈال چکی ہے۔ پنجابی طالبان کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ نے 22 اگست کو نوازشریف کی پیشکش کا خیرمقدم کیا تھا لیکن تحریک کی مرکزی قیادت اس سے خوش نہیں تھی۔ اس کا خیال ہے کہ کسی خیرمقدم سے قبل انہیں پاکستانی حکومت کے اقدامات پر محتاط انداز میں نظر رکھنی ہو گی۔ جنوبی وزیرستان میں مولوی نذیر، شمالی وزیرستان میں گل بہادر اور حقانی نیٹ ورک ایسے گروہ ہیں جو پاکستان سے متعلق پہلے ہی تحریک سے قدرے مختلف پالیسی رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت کے پاس دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ایک سے زائد راستے موجود ہیں مگر دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا راستہ اختیار کیا جائے جس میں مزید معصوم انسانی جانیں ضائع نہ ہوں۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہمارے ہاں اس بات پر تو کوئی اعتراض نہیں کرتا کہ امریکہ دوحہ میں طالبان کیساتھ مذاکرات کیوں کر رہا ہے لیکن ہماری حکومتیں جب پاکستانی طالبان سے بات چیت کا ماحول بناتی ہیں تو الفاظ کی صورت میں زہر اگلنے لگتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب طالبان کیساتھ مذاکرات کا وقت آگیا ہے۔ ہمیں اب بھی اس بات کا پورا یقین نہیں کہ حکومت نے طالبان کے مذاکرات کا جو ماحول بنایا ہے ‘ برقرار رہنے دیا جائیگا یا نہیں‘ اسلئے ریاست کو طے کر لینا چاہئے کہ ان مذاکرات کو ہر حال میں کامیاب بنانا ہے۔ قارئین کرام! اب 2014ءمیں جب امریکہ افغانستان سے جائیگا تو اس وقت ان طالبان کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو گا۔ اس لئے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رہنا چاہئے۔