طالبان۔ ایک حقیقت سو افسانے
طالبان ایک حقیقت، سو افسانے ہیں۔ یہ ظالمان ہیں یا مہربان ہیں۔ اس کا فیصلہ وقت کریگا۔ فی الحال پاکستان کی ابتری کو بہتری میں بدلنے کیلئے تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان کو تاریخی تناظر میں پرکھنا ازحد ضروری ہے۔ طالبان کے 3 ادوار ہیں جبکہ چوتھے دور کا آغاز وزیراعظم نوازشریف کی طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی ہے۔ جو نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی اثرات کی حامل ہے۔ طالبان ایک ایسی حقیقت ہیں جن کی جہادی حکمت عملی نے آہنی اور ناقابل تسخیر عالمی روسی طاقت کو شکست دی اور امریکہ کو دنیا کی واحد عالمی طاقت بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت طالبان زوال پذیر امریکہ و اتحادی ممالک سے نبردآزما ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کی مزاحمتی پالیسی ایک نہ ختم ہونبوالا امر ہے۔ جو 1985ءسے دور حاضر تک پاکستان کی سرکار سازی اور پالیسی کو بالواسطہ اور بلاواسطہ متاثر کر رہی ہے۔ طالبان کے پس منظر میں پاکستان کے 2 ادوار ہیں اور اب تیسرے دور کی نمود اور ظہور ہے۔ پاکستان میں طالبان حقیقت اس قدر فیصلہ کن ہے کہ 12 اکتوبر 1999ءکا پرویزی فوجی سازشی انقلاب امریکہ طالبان تناﺅ اور آویزش کا نتیجہ تھا۔ روس، امریکہ و اتحادی ممالک کے اہداف پاک افغان (افپاک) خطے کے معاشی وسائل بشمول گوادر اور کراچی کے ساتھ حلیف/ ہمنوا ریاستی اڈے بنانا ہے۔ 1985ءتک روسی حملہ آوروں کو مزاحمت کا سامنا تھا۔ بعد ازاں یہ مذکورہ مزاحمت غیر ریاستی رہی مگر جاری تھی اور تاحال ہے۔ یہ فی الحقیقت دو ہاتھیوں کی لڑائی ہے، جس میں پاکستان سبزہ¿ بیگانہ ہے مگر یگانہ بھی ہے۔
پاکستان کا دور اول ضیائی اور دوسرا جمہوری و پرویزی ہے۔ ضیائی دور قومی سلامتی اور ملی یکجہتی کا عکاس ہے۔ اس دور کی پالیسی سب سے پہلے اسلام اور پاکستان ہے جبکہ دوسرا دور مزاحمت کے بجائے مفاہمت عالمی دباﺅ اور سب سے پہلے پاکستان کا ہے۔ یہ دور جونیجو سے شروع ہوا۔ بینظیر اور نوازشریف اسی پالیسی پر کاربند رہے جبکہ نواز کے پہلے دو ادوار میں ضیائی پالیسی کا جلوہ بھی جھلکتا ہے جبکہ پرویزی دور بھرپور عالمی مفاہمت اور طالبان کیخلاف کھلی جنگ اور جارحیت کا ہے۔ نوازشریف کا دور حاضر پاک طالبان لڑائی کے باعث دہشت گردی کے مضر اثرات سے بچنے کیلئے طالبان سے مذاکرات اور قومی حکمت عملی کے دور کا آغاز ہے۔ جبکہ امریکہ و اتحادی ممالک پاکستان اور طالبان کے مذاکراتی حکمت عملی کے سخت مخالف ہیں۔ پاکستان نواز طالبان لیڈر نیک محمد کی امریکی راکٹ اور ولی الرحمن کی ڈرون حملے میں شہادت پاک طالبان مذاکرات میں رکاوٹیں ڈالنے کے مترادف ہے۔ نیز وزیر داخلہ چودھری نثار کا بیان ہے کہ بعض وچولی عناصر سرکاری اہلکار کا لبادہ اوڑھ کر مذکورہ مذاکرات میں رخنے ڈالتے ہیں۔ امریکہ طالبان تعلقات بھی ایک حقیقت، سو افسانوں کا روپ ہیں۔ طالبان کا کمال یہ ہے کہ قومی خودمختاری اور آزادی کیلئے ہر دم مرنے مارنے پر آمادہ ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انہیں ضیائی دور میں پاکستان کی ریاستی سرپرستی میسر تھی مگر بعد از ضیاءپاکستان عالمی دباﺅ اور جمہوری تماشے کے باعث طالبان مخالف دھڑے کا حصہ بن گیا مگر ہر دو صورت طالبان نے قومی مزاحمت اور ملی وحدت کا دامن نہیں چھوڑا۔ طالبان کے 4 ادوار درج ذیل ہیں۔ پہلا ضیائی دور عالمی و امریکی امداد اور دباﺅ کے بجائے ملکی سلامتی کا مظہر ہے۔ اس دور میں طالبان افغان مجاہدین کہلاتے تھے۔ دوسرا دور جونیجو بینظیر اور نواز کے ادوار کا ہے جو افغان مجاہدین کے انتشار، افتراق اور خانہ جنگی کا ہے۔ اس دور میں امریکہ و اتحادی عالمی برادری نے بذریعہ پاکستان مجاہدین کا نام بدل کر طالبان رکھا۔ اور انکے ذریعے ضیائی دور کے متحدہ مجاہد قیادت کیخلاف بغاوت کرائی۔ تیسرا دور پرویزی ہے جس سے قبل امریکہ و طالبان کے درمیان طالبان قائد اور ریاستی نظام کے بارے میں اختلاف ہوا۔ اور امریکہ و اتحادی ممالک نے پرویز مشرف کے ذریعے امیرالمومنین ملا عمر اور افغانستان میں نافذ اسلامی نظام کو پاکستان اور نیٹو افواج کے ذریعے بدلا۔ افغانستان اور پاکستان میں حکومتی و ریاستی نظام کا مسئلہ ضیاءدور سے چل رہا ہے جو تاحال حل نہیں ہوا۔ اور یہی مسئلہ پاک افغان خطے میں دہشت گردی، غربت، مہنگائی، نجکاری وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ پاکستان کی ضیائی انتظامیہ حلیف مجاہدین کی حکومت چاہتے تھے جبکہ امریکہ و اتحادی ممالک افغانستان اور پاکستان میں وسیع البنیاد اور موجودہ اصطلاح میں مفاہمتی سرکاری کے خواہاں تھے۔ اس امر میں فی الحال پاکستان اور امریکہ و اتحادی کامیاب نہیں ہوئے مگر دانت کھٹے ہونے کی حد تک ناکام بھی نہیں ہوئے۔ افغان مجاہد طالبان کی افغان جنگی حکمت عملی ہزار فیصد کامیاب ہے، افغان قبائل کی پاک شمالی پہاڑی اور میدانی علاقوں میں باہم رشتہ داریاں ہیں لہٰذا پاکستان بالواسطہ پاک افغان پالیسی سے متاثر ہوتا ہے۔ نوازشریف کی طالبان سے مذاکراتی پالیسی خطے میں امن، سلامتی اور خوشحالی کی ہے۔ اس پالیسی کے پروان چڑھانے سے امریکہ کو ناراض بھی کرنا پڑے تو سودا برا نہیں۔