ریلوے سکول میں اچھی شاعری کے پھول
میں جب سٹیج سے نیچے آیا تو بہت ساری بچیوں نے مجھے گھیر لیا۔ کچھ دوست بھی تھے۔ اس ہڑبونگ میں ذرا فاصلے سے آواز آئی کہ سر۔ میں نوائے وقتن ہوں۔ نوائے وقت پڑھنے والوں کو ڈاکٹر مجید نظامی نوائے وقتیے کہتے ہیں۔ میں نے ایک کالم میں جنرل مشرف کی والدہ کے لئے لکھا تھا کہ وہ نوائے وقت پڑھتی ہیں تو نظامی صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ نوائے وقتن ہے۔ مرحوم اکبر بگٹی بلوچستان کے پہاڑوں میں صرف نوائے وقت کا انتظار کرتا تھا کہ اس اخبار میں پاکستان بولتا ہے۔ مگر نوائے وقتن کی اصطلاح ایسی ہے جس کے لئے عام خواتین و حضرات نہیں جانتے۔ میں حیران ہوا۔ اور اس خاتون کے پاس چلا گیا۔ ریلوے لیڈی گریفن سکول اینڈ کالج کی پرنسپل ڈاکٹر نسرین علی اعوان نے بتایا کہ وہ انگریزی کی پروفیسر ہے اور اُس کا نام مہرالنسا ہے۔ پھر اس معزز خاتون نے مجھے نوائے وقت کے اداریے اور میرے کالم ”بے نیازیاں“ میں سے کئی جملے سنا دئیے۔ نوائے وقت سے محبت کے لئے میں نے اسے سیلوٹ کیا۔ مجھے اس کے ساتھ گفتگو کا موقعہ نہ ملا۔ مگر مجھے یہ تو پتہ ہے کہ اچھے دل و دماغ والے خواتین و حضرات نوائے وقت پڑھتے ہیں خوشی یہ ہے کہ وہ اتنے جذبے سے پڑھتے ہیں۔
میں اب سکولوں کالجوں کی تقریبات میں کم کم جاتا ہوں۔ مگر ریلوے کے لیڈی گریفن سکول اینڈ کالج کے لئے مجھے برادرم اشرف عظیم نے کہا۔ وہ دوستوں سے بڑھ کر ہے۔ بہت اہل اور اہل دل آدمی ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہم ساتھ تھے۔ ہم دونوں ”راوی“ کے ایڈیٹر تھے۔ وہ پی ٹی وی کے ایم ڈی کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ انہیں جنرل منیجر ڈویلپمنٹ ریلوے ایجوکیشن نثار گوندل نے کہا تھا کہ ہم اپنے ادارے میں بیت بازی کا مقابلہ بچوں کے درمیان کرا رہے ہیں۔ اجمل نیازی سے کہیں کہ وہ مہمان خصوصی کے طور پر ہمارے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے آئیں۔ میں تعلیمی اداروں میں مشاعروں کے حق میں نہیں ہوں۔ اس طرح بچے غزلیں، نظمیں لکھوا کے لے آتے ہیں اور پھر بعد میں ان میں کوئی بھی شاعری کو اپناتا نہیں ہے۔ بیت بازی میں اچھے اچھے اشعار بچے یاد کرتے ہیں۔ ان کے اندر شعری ذوق پیدا ہوتا ہے۔ پہلے بیت بازی کے مقابلے بہت ہوتے تھے۔ اب یہ رجحان کم ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہاں ساتویں آٹھویں کلاس کے بچوں بچیوں نے اتنے عمدہ اشعار سنائے۔ اُن کا تلفظ بھی ٹھیک تھا۔ انہوں نے شاعری کا ردھم بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ میں نے دیکھا کہ اچھا شعر پڑھتے ہوئے بچیوں کے چہروں پر ایک روشنی ہوتی تھی۔ ان کی آنکھیں بھی چمکتی تھیں۔ آٹھویں کلاس کی ایک بچی طیبہ رحمان نے بہت اچھے انداز میں بہت اعلیٰ اشعار پڑھے۔ اس کے علاوہ سویرا خالد، کنزہ کمال تھیں۔ یہ تینوں بچیاں کامیاب ہونے والی ٹیم کے طور ٹرافی کی حقدار ثابت ہوئیں۔ میں شاعر بھی ہوں مگر اس مقابلے میں ہوتا تو ہار جاتا۔ ارم رزاق اور ثانیہ نوشاہی نے اس مقابلے کو کنڈکٹ کیا۔ پرنسپل ڈاکٹر نسرین اعوان کی پوری سرپرستی اور نگرانی بچوں کو حاصل تھی۔ اس ساری تقریب کا خیال نثار گوندل کے ذہن میں تھا۔ وہ ریلوے کے سب سکولوں کالجوں میں یہ روایت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے اچھا لگا جب ایک موقعے پر انہوں نے بچوں کو خوب انجوائے کرتے اور شغل کرنے کی اجازت دی۔
تقریب میں ممبر پنجاب اسمبلی ارم حسن باجوہ بھی تھیں۔ وہ اس سکول سے پڑھ کر گئی ہیں۔ سکول کی یادیں انہیں کھینچ کے لے آئیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کلثوم نواز بھی اسی سکول سے پڑھ کر گئی ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے سکول کی ترقی اور بہتری کے لئے کوشش کریں۔ ارم حسن نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ یہ پیغام ضرور کلثوم نواز تک پہنچائیں گی۔ ارم حسن نے بہت اچھی تقریر کی۔ ان کے ساتھ اس علاقے سے تعلق رکھنے والی ایم پی اے نبیرہ عندلیب بھی تھیں۔ ممبران اسمبلی اس طرح اپنے علاقے کے معاملات میں دلچسپی لینے لگیں تو بات بن جائے گی۔ سکول کے ہمسائے میں جامعہ نعیمیہ ہے۔ میرا تعلق شہید سرفراز نعیمی سے تھا۔ اب راغب نعیمی سے اچھی ملاقات ہے۔ نبیرہ عندلیب راغب نعیمی کی اہلیہ ہیں وہ مشرقی آداب کو نئے زمانے کے ساتھ جوڑنے کا سلیقہ اپنے گھر سے لے کے آئی ہیں۔ ارم اور نبیرہ دوست ہیں۔ ایسے لوگ پنجاب اسمبلی کے ماحول کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہونگے۔ جامعہ نعیمیہ میں شہباز شریف کی صدارت میں تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ آپ غریبی ختم نہ کریں تھوڑی سی امیری ختم کر دیں تو بات بن جائے گی۔
اشرف عظیم کے ساتھ جب میں سکول میں داخل ہوا تو چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرف سے پذیرائی نے حیران کر دیا۔ اسے افسران اور حکمران پروٹوکول کہتے ہیں میں پروٹوکول کے خلاف ہوں۔ پھول سے بچوں کے ہاتھ میں پھول تھے۔ دونوں کی خوشبو نے مجھے سرشار کر دیا۔ مجھے پسند ہیں بچے۔ پرندے اور پھول۔ اس دوزخ بنتی ہوئی زمین پر بچے جنت کے باشندے ہیں۔ جب بچوں نے بینڈ بجایا تو بڑا مزا آیا۔ میرا دل چاہا کہ یہاں دھمال ڈالنا شروع کر دوں۔ مجھے اشرف عظیم نہ روکتا تو میں ناچنے لگتا۔ ہمارے گاﺅں میں دو پٹھان دوست خفا ہو گئے۔ ایک نے اپنے بیٹے کی شادی پر دوست کو نہ بلایا۔ جب ڈھول بجنے لگا تو ناراض دوست اپنے گھر کے صحن میں ناچنے لگا۔ مجھے تم بیٹے کی شادی میں نہ بلاﺅ مگر تم مجھے ناچنے سے تو نہیں روک سکتے۔