اوباما کے لئے پہلی رکاوٹ دور‘ امریکی سینٹ کی خارجہ کمیٹی نے شام پر حملے کی منظوری دیدی
دمشق، واشنگٹن، لندن (نوائے وقت رپورٹ+ آن لائن+ اے پی پی+ اے ایف پی) امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے شام پر حملے کی منظوری دیدی۔ امریکی سینٹ کے 10 ارکان نے بل کی حمایت اور 7 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ امریکی جنرل نے کہا ہے کہ شام کو روکنے کیلئے سخت جواب دینا ہوگا۔ شام پر حملہ نہ کیا تو دوبارہ کیمیائی ہتھیار استعمال ہوگا۔ امریکہ میں دو تازہ ترین کئے گئے سرویز میں امریکیوں کی اکثریت نے شام پر حملے کی مخالفت کی ہے۔ شام کی مسلح افواج کے 55 اہلکاروں نے سرکاری ملازمت اور صدر بشارالاسد سے وفاداری کا طوق اتار پھینکا ہے اور وہ منحرف ہوکر باغیوں کے ساتھ مل گئے ہیں۔ ادھر روس نے شام کو ایس 300 میزائل سسٹم اور انکے آلات کی فراہمی روکدی۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا شام کیخلاف امریکی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ بان کی مون نے شام کے مسئلے پر جنیوا کانفرنس کے فوری انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ کے ریٹائرڈ فوجی افسروں اور اہلکاروں نے ٹویٹر پر بھی اپنے پیغام میں صدر اوباما سے مطالبہ کیا ہے کہ شام پر حملے کا فیصلہ موخر کیا جائے۔ شامی اپوزیشن کے رکن خالد صالح نے کہا ہے صدر بشار الاسد کے فوجی کیمیائی ہتھیاروں کو جزوی طور پر دمشق سے شمال مشرقی شہر کے بیس پر منتقل کررہے ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے شام کے بحران کے بارے میں ہالینڈ اور آئرلینڈ کے حکام سے بات چیت کی اور شام کیخلاف طاقت کے استعمال کو ناکام طریقہ قرار دیا۔ انہوں نے انڈونیشیا کے وزیر خارجہ سے بھی بات کی۔ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو شام کیخلاف یکطرفہ کارروائی کرنے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ سے منظوری کے بغیر شام کیخلاف کوئی بھی فوجی کارروائی ”جارحیت“ ہوگی۔ کانگرس کو حملے کی منظوری کا اختیار نہیں۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ اگر امریکہ نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے بغیر فوجی کارروائی کی تو روس اس صورت میں کیا کریگا۔ صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس نے شام کیخلاف فوجی کارروائی کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی حمایت سے انکار نہیں کیا لیکن اس کا انحصار شامی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ٹھوس شواہد پر ہوگا۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ثبوت اقوام متحدہ کے سامنے پیش کئے جانے چاہئیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ شام میں محدود فوجی کارروائی کے ذریعے بشار الاسد کو حقیقی سخت پیغام دینا چاہتے ہیں۔ شام میں عراق جنگ جیسی انٹیلی جنس غلطی دہرانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میری اور بین اقوامی برادری کی ساکھ داﺅ پر لگی ہے۔ امید ہے پیوٹن شام کے حوالے سے اپنی پوزیشن تبدیل کرلیں گے۔ عالمی برادری حمایت اور ریڈلائن کا تعین کرے۔ ادھر شامی نائب وزیر دفاع نے کہا ہے کہ کسی بھی جارحیت سے نمٹنے کیلئے ہر قسم کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ اگر تیسری جنگ عظیم بھی شروع ہوجائے تو شام ہمت نہیں ہارے گا۔ سابق شامی وزیر دفاع جنرل علی حبیب منحرف ہوکر ترکی چلے گئے۔ ایران نے خبردار کیا ہے شام کیخلاف ممکنہ کارروائی دنیا بھر میں مسلم برادری میں امریکہ مخالف جذبات اکسانے کا باعث ہوگا۔ ترکی نے کہا کہ شام کیخلاف ایکشن ہوا تو پناہ گزینوں کا مسئلہ بحران کی شکل اختیار کر لےگا۔ امریکی وزیر دفاع نے چک ہیگل نے کہا کہ کروڑوں ڈالر خرچ ہونگے۔ شام پر حملہ معمولی نہیں بلکہ بشار الاسد کی فوج کی صلاحیت کم کردینگے۔ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے شام میں 50 دہشت گردوں کو تربیت دی ہے۔ روس نے کہا حملہ کی صورت میں امریکی میزائل جوہری ری ایکٹر کو لگا تو بڑی تباہی کا خدشہ ہے جبکہ شام پر حملے کیلئے سینٹ میں بل اگلے ہفتے پیش کیا جائیگا۔ بل کی منظوری سے شام پر حملے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اس سے صدر اوباما کے شام پر حملے کیلئے منصوبے میں حائل پہلی رکاوٹ دور ہو گئی۔ بل کے تحت امریکی فوج کو 90 دن کی ڈیڈلائن پر حملے کا مجاز قرار دیا گیا ہے۔