اوباما‘ پیوٹن ملاقات‘ شام کے معاملہ پر اختلافات برقرار‘ حملے سے معیشت متاثر ہو گی: چین
سینٹ پیٹرز برگ + دمشق (اے ایف پی + رائٹرز + نوائے وقت رپورٹ) امریکی صدر بارک اوباما اور روس کے صدر پیوٹن میں گذشتہ روز جی 20 اجلاس کے دوران ون ٹو ون ملاقات ہوئی تاہم دونوں رہنما¶ں میں شام پر حملے سے متعلق اختلافات برقرار رہے۔ 20 منٹ تک بات چیت ہوئی۔ پیوٹن نے کہا کہ کیمیائی حملے شام میں مداخلت کا جواز پیدا کرنے کے لئے کئے گئے۔ شام پر حملے سے عالمی معیشت متاثر ہو گی، چین، انڈونیشیا، برازیل، ارجنٹائن اور بھارت سمیت کئی ممالک شام پر فوجی کارروائی کے خلاف ہیں۔ دریں اثناءامریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ شام کے معاملے پر امریکہ کے عوام سے منگل کے روز خطاب کروں گا۔ شام کے مسئلے پر کانگرس سے مشاورت جاری ہے، شام میں کیمیائی ہتھیار عالمی امن اور سکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جی 20 ممالک متفق ہیں کہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے، عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے بشار الاسد کو کیمیائی حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ روس نے واضح کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر حملہ کیا گیا تو روس شام کو میزائل دفاعی نظام فراہم کرے گا۔ چین نے بھی شام کے خلاف فوجی کارروائی کی بھرپور مخالفت کی۔ چین کے نائب وزیر خزانہ نے کہا کہ شام پر حملہ کیا گیا تو خام تیل کی قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی اور اس کے عالمی معیشت پر انتہائی منفی اثرات ہوں گے۔ جی 20 اجلاس کے دوسرے روز بھی شام پر بحث ہوئی مگر اختلافات کم نہیں ہو سکے۔ ادھر اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور نے روس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے شام کے خلاف سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بار بار ویٹو کر کے ادارے کو یرغمال بنا لیا ہے۔ دریں اثناءشام کی پارلیمان کے سپیکر محمد جہاد نے اپنے امریکی ہم منصب جان بینر کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ شام میں فوجی کارروائی کے بارے میں جلد بازی نہ کریں۔ ترک وزیراعظم طیب رجب اردگان نے کہا کہ جی 20 اجلاس میں تقریباً تمام ممالک نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام کے خلاف کارروائی کی حمایت کی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق ترکی نے شام کے ساتھ لگنے والی جنوبی سرحد پر اپنی فورسز کی تعداد کو بڑھا کر چوکس کر دیا۔ دریں اثناءجرمن وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے حوالے سے رورٹ جلد مکمل کی جائے۔ ادھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے یورپی ممالک کی شام پر حملے کے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے یورپی رہنما¶ں سے مذاکرات شروع کر دئیے ہیں۔ جان کیری کل یورپی یونین کے وزرائے خارجہ سے بھی ملیں گے۔ ادھر امریکہ نے بیروت میں واقع اپنے سفارت خانے کے عملہ کو واپس بلا لیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ جی 20 اجلاس میں شام کے مسئلے پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا۔ دریں اثناءاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے خبردار کیا ہے کہ شام کے خلاف فوجی کارروائی سے فرقہ وارانہ فسادات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ دریں اثناءروس نے تیسرا بحری جنگی جہاز بحیرہ روم روانہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ نیکولائی فلچنکو نامی نیول لینڈنگ بحری جہاز نووارسیک میں ضروری کارگو لے کر مشرقی بیرہ روم کی جانب روانہ ہو گا۔ یہ باتیں روسی وزارت دفاع کی جانب سے جمع کو جاری ایک بیان میں کہی گئی ہیں۔ روس پہلے ہی ایک آبدوز شکن جنگی جہاز اور کروز بحیرہ روم کی جانب روانہ کر چکا ہے۔ امریکی حملے کے پیش نظر روسی بحریہ کی نقل و حمل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر عالمی رہنماﺅں کو اپنے م¶قف سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت شامی عوام پر کیمیائی حملوں کی بھرپور مذمت کرتا ہے تاہم شام پر کسی بھی فوجی کارروائی سے قبل اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کا انتظار کرنا ضروری ہے۔ کانفرنس میں شریک 11 ممالک نے شام کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے اسے سبق سکھانے پر زور دیا۔ اے پی پی کے مطابق امریکی کارکان کانگرس نے مسئلہ شام پر روسی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کرنے سے انکار دیا جبکہ روس نے امریکی ارکان کے اس رویہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔