• news

ملزم ناقص تفتیش سے چھوٹتے ہیں ‘ ادارے اختیارات سے تجاوز کریں تو کردار ادا کرنا پڑتا ہے: چیف جسٹس

اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاہے کہ ناقص تفتیش اور کمزور استغاثہ کی وجہ سے دہشت گرد چھوٹ جاتے ہیں اس سے نہ صرف عدالتوں کا امیج خراب ہو رہا ہے بلکہ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو رہی ہے اور اس کا الزام عدلیہ پر لگایا جاتا ہے، لاپتہ افراد کسی جرم میں ملوث ہیں تو قانون کے مطابق کارروائی ورنہ رہا کئے جائیں، کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالتوں میں ججز کی کمی کے باوجود 268 مقدمات نمٹائے گئے اور 714نئے مقدمات کا اندراج کیا گیاہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ججوں کی منظوری کے باوجود ابھی تک ان کی تعیناتی نہیں کی گئی، ملک میں سماجی و معاشرتی ترقی اور اچھی حکمرانی میں عدالتوں کا اہم کردار ہوتا ہے، نظام کو مستحکم کرنے اور آئین کی فعالیت کیلئے کوشش کرتے رہیں گے۔ ججز نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے، عدلیہ نے فیصلے تکبر کا اظہار کرنے کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ آئین وقانون کی بالادستی کے لیے دیئے ہیں۔ نئے عدالتی سال کے آغاز پر تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ عدالتیں مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے آئین میں دیئے گئے اصول اور ضوابط پر نظر رکھتی ہے اور جمہوری اداروں اور منتخب نمائندوں کا احترام کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں انصاف نہ ملنے کی وجہ سے عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچی، تحریک کے بعد بحال ہونے والی عدلیہ عوامی اعتماد پر پورا اتری ہے۔ حکومت ایسے تمام لاپتہ افراد کی رہائی کیلئے خصوصی اقدامات کرے جو کسی بھی مقدمے یا ملک دشمن سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں۔ عدالت جمہوری اداروں اور منتخب نمائندوں کا احترام کرتی ہے، تاہم ریاستی ادارے اپنے اختیارات سے تجاوز کریں تو عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، ملک میں سماجی و معاشرتی ترقی اور گڈ گورننس لانے میں عدالتوں کا اہم کردار ہوتا ہے، نظام کو مستحکم کرنے اور آئین کی فعالیت کیلئے کوشش کرتے رہیں گے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز نے حلف لیا ہوتا ہے کہ وہ ہر حال میں آئین کا تحفظ کریں گے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی میں بعض اوقات کچھ مخالفانہ فیصلے دینے پڑتے ہیں۔ جن کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ججز اپنے تکبر اور طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایسے فیصلے آئین کی ضرورت ہوتے ہیں جو ملکی مفاد اور استحکام کیلئے دیئے جاتے ہیں۔ عدلیہ کی بحالی کے بعد عوام کی توقعات پوری ہو رہی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں اداروں، منتخب نمائندوں کا احترام کرتی ہیں اور ان کے فرائض کی ادائیگی میں مدد کرتی ہیں۔ عدلیہ کسی بھی ماروائے آئین اقدام کو چیک کر سکتی ہے۔ آئین کے تحت عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ کسی پر احسان نہیں بلکہ لوگوں کا حق ہے۔ اس حق کو دلانے کے لئے عدلیہ کی جانب سے ججوں کی تعداد میں اضافے کے لئے حکومت کو کئی بار لکھا مگر صرف پنجاب نے اس پر توجہ دی اور نہ صرف ضلعی عدلیہ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ بلکہ عدالتی انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے کے لئے ایک ارب روپے کے فنڈز بھی فراہم کئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں کئی برائیاں ہیں مگر بدعنوانی سب سے بڑی برائی ہے جس کی ایک مثال 52ارب روپے کے فنڈز کے غیرقانونی استعمال میں ایک سابق وزیراعظم کئی وزراءاور عمائدین کا ملوث ہونا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب کراچی میں درجنوں بے گناہ افراد لقمہ اجل بن گئے اور حکومت شہر لا اینڈ آرڈر کی خراب صورت حال پر قابو پانے می ناکام رہی تو یہ عدالت تھی جس نے ازخود نوٹس لیا اور تمام فریقین کو سننے کے بعد امن و امان کی خرابی کی وجوہات کی نشاندہی کی اور انتظامیہ کو حالات پر قابو پانے کے لئے کئی احکامات بھی جاری کئے۔ چیف جسٹس نے میڈیا کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے نہ صرف آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمران میں مثبت کردار ادا کیا بلکہ آئین اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب بھی عدلیہ کی توجہ دلائے رکھی۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ توقع کرتے ہیں عدالت حکومت کی پالیسی سازی میں مداخلت نہیں کرے گی۔

ای پیپر-دی نیشن