وزیراعظم ‘ آرمی چیف اور عمران کی ملاقات ‘ ڈی جی آئی ایس آئی کی بریفنگ‘ تحریک انصاف کے سربراہ کا اظہار اطمینان
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) قومی سلامتی پر آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد سے قبل وزیراعظم نوازشریف، چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے درمےان وزےراعظم ہا¶س مےں ملاقات ہوئی جس میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار بھی موجود تھے۔ ملاقات میں خیبر پی کے بالخصوص فاٹا مےں امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹنینٹ جنرل ظہیرالاسلام نے سکےورٹی صورتحال پر بریفنگ دی۔ عمران خان مشروط طور آل پارٹےز کانفرنس مےں شرکت پر آمادہ ہوئے۔ عمران خان نے سیاسی و عسکری قیادت سے ڈرون حملوں کو روکنے پر بات کی اور اس بات پر زور دےا طالبان سے مذاکرات کو ترجےح دی جائے حکومت پاکستان کو ڈرون حملوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرنا چاہئے۔ طالبان گروپوں کی کتنی تعداد ہے؟ انہیں کہاں سے فنڈز فراہم کئے جا رہے ہےں اور کیا کالعدم تنظیمیں بھی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ عمران خان نے سیاسی و عسکری قیادت کو چار مطالبات بھی پیش کئے جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باہر نکلنے کا مطالبہ سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان نے طالبان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے، سچائی اور مفاہمت پر مشتمل کمشن اور ضرورت پڑنے پر فاٹا اور بلوچستان میں آئین کے مطابق کارروائی کا مطالبہ شامل ہے۔ وزےراعظم محمد نوازشرےف نے ملاقات مےں عمران خان کو اس بات کی ےقےن دہانی کرائی طالبان سے مذاکرات ان کی حکومت کی اولےن ترجےح ہے وہ جنگجو¶ں کو قومی دھارے مےں لانے کی کوشش کر رہے ہےں۔ مزید برآں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کل جماعتی کانفرنس کی قرارداد کو کئی حوالوں سے پاکستان تحریک انصاف کی دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی کی عکاس قرار دیا ہے۔ انہوں نے فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات اور دہشت گردی پر حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد پر اطمینان کا اظہار کیا ہے تاہم انہوں نے فوج کے سربراہ سے ملاقات اور کل جماعتی کانفرنس میں شمولیت کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں ان اقدامات کو ملک کی دہشت گردی کے خلاف ا مریکی جنگ سے علیحدگی اور انسداد دہشت گردی کی مجموعی قومی پالیسی کی تشکیل کی ابتدا قرار دیا ہے۔ عمران خان نے کہا پاکستان تحریک انصاف ہمیشہ سے امن کو موقع دینے پر زور دیتی رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے پاکستان یک علیحدگی، گفت و شنید اور حقیقت اور مفاہمت جیسے اقدامات کی وکالت کرتی رہی ہے۔ ڈرون حملوں پر پاکستان کی مخالفت کو ٹھوس اور واضح زبان میں امریکیوں کے گوش گزار کرنے کو سراہتے ہوئے عمران خان نے کہا خطے سے دہشت گردی کے مقابلے کے لئے امریکیوں کی عسکری حکمت عملی کے منفی اثرات سے ان کو آگاہ کرنا انسداد دہشت گردی کی متفقہ قومی پالیسی کے قیام کی واضح منزل کی جانب اچھا قدم ہے۔ انہوں نے تجویز دی سرزمین پاکستان کے خلاف امریکہ کے منفی اور غیر قانونی اقدام کے خلاف ڈرون حملوں کے معاملے کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اٹھانے کو حکمت عملی کے ایک اہم نکتے کے طور پر لینا چاہئے۔ اس سے قبل وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف سے اپنی ملاقات، جس میں وزیر اعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک بھی شریک تھے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا عسکری اور سیاسی قیادت کو اپنے نکتہ نظر سے بخوبی آگاہ کیا ہے اور بتایا ہے پاکستانی فوج کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں بھیجنا فاش غلطی تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا اجلاس میں ان کی جانب سے اٹھائے گئے کئی سوالات کے جواب بھی دئیے گئے۔ عمران خان نے فوری طور پر ایک جامع اور مشترکہ انسداد دہشت گردی حکمت عملی اور اس کے نفاذ کے لئے خاص طور پر ادارتی نظام کے قیام کی امید کا اظہار کیا ہے۔