• news

ڈرون حملوں کیخلاف سلامتی کونسل سے رجوع کرنا چاہئے‘ طالبان سے فوری مذاکرات کئے جائیں: اے پی سی کی متفقہ قرارداد‘ بات چیت کے معاملے پر سیاسی اوور عسکری قیادت میں اتفاق

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی/نمائندہ خصوصی +نوائے وقت رپورٹ) آل پارٹیز کانفرنس نے 6 نکاتی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا ہے قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے افواج پاکستان سے مکمل یکجہتی اور ان کی حمایت کرتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیوں کو عالمی برادری نے تسلیم نہیں کیا، ڈرون حملوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے جائزہ لیا جائے ‘ طالبان سے فوری مذاکرات کئے جائیں، دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ماضی کی کوششوں کے مطلوبہ نتائج نہیں ملے۔ جنگ لڑنے سے متعلق امریکہ یا کسی دوسرے ملک سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے، حکومت مذاکرات کرنے کے لئے تمام اقدامات اٹھا سکتی ہے، مذاکرات میں علاقائی روایات کا خیال رکھا جائے، جنگ اور غیر قانونی ڈرون حملوں میں ہزاروں قیمتیں جانیں ضائع ہوئیں۔ ڈرون حملوں سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ مذاکراتی عمل میں خیبر پی کے حکومت کو بھی شامل کیا جائے گا۔ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کا ہر صورت دفاع کیا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ قومی مفاد میں ہے، اس جنگ میں خواتین، بچوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانیں بھی گئیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہمارے انفراسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچا، بدقسمتی سے پاکستانی عوام کی قربانیوں کو عالمی برادری نے تسلیم نہیں کیا، دہشت گردی کا شکار اور آئی ڈی پیز کی بحالی کے لئے ہرممکن تعاون کیا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ہم جنگ لڑنے کے طریقہ کار کو قومی مفاد میں خود طے کریں گے، ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے، مسلح افواج پر مکمل اعتماد اور بھروسے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، کراچی کے معاملے پر سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کے وفاقی حکومت کے اقدام کو سراہتے ہیں، کراچی میں امن و امان کی بحالی کے لئے صوبائی حکومت کی مکمل حمایت کو بھی سراہتے ہیں، کراچی کی رونقیں دوبارہ لانے کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومتیں پائےدار کوششیں کریں، کراچی میں جان و مال اور کاروبار کو خطرات پر تشویش ہے، بلوچستان کی متاثرہ صورتحال پر بھی تشویش ہے، بلوچ بہن بھائیوں کی مشکلات سے آگاہ ہیں، ملک کے اندر اور باہر ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لایا جائے، وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا اختیار دے دیا جائے، اے پی سی بلوچ بھائیوں اور بہنوں کے خدشات سے پوری طرح واقف ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اے پی سی نے حکومت کو اختیار دیا ہے کہ وہ ایک مناسب میکنزم تیار کرنے اور رابطہ کاروں کی نشاندہی سمیت تمام ضروری اقدامات کرے اور مذاکرات کو پہلی ترجیح رکھا جائے۔
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ کریں گے نہ قومی سلامتی، معیشت، دہشت گردی، توانائی کے بحران پر سیاست کی جائے گی۔ پاکستان دہشت گردی کی گرفت میں ہے۔ نئی صبح کا آغاز کرنا ہے۔ دہشت گردی کے معاملے پر نفاق کا مظاہرہ کیا تو یہ سب کے لئے گھاٹے کا سودا ہو گا۔ ہم مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کے مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہتے ہیں طالبان سے مذاکرات میں سنجیدہ ہیں۔ دہشت گردی کے انسداد کیلئے مذاکرات کو اولین ترجیح سمجھتے ہیں، اس کانفرنس کے توسط سے طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کی جائیگی۔ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے سیاسی رہنماﺅں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے متفقہ فیصلوں اور مسائل کے حل سے جمہوریت پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ قیام امن کے لئے تمام صوبوں سے بھرپور تعاون کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں وزیر اعظم ہاﺅس میں قومی سلامتی کے معاملے پر کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ، پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفرالحق، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینز کے چیئرمین مخدوم امین فہیم، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، میاں محمد اسلم، عوامی نیشنل پارٹی کے قائم مقام صدر سینیٹر حاجی عدیل، پختوانخوا ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل، مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگاڑا، امتیاز شیخ، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاﺅ، (ق) لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین، سینٹ، قومی اسمبلی میں فاٹا کے پارلیمانی لیڈرز جی جی جمال، سینیٹر عباس آفریدی، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف، وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ ، وزیر اعلی خیبر پی کے پرویز خٹک، وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، گورنر خیبر پی کے انجینئر شوکت اللہ، چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام، وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید، وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے سیاستدانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ قومی سلامتی کے معاملے سے ہمارا حال اور مستقبل وابستہ ہے دہشت گردی پاکستان کا اس وقت اہم ترین معاملہ ہے۔ ہم اس پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل بھی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر آل پارٹیز کانفرنسیں ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی نمائندہ جماعتوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی کی گرفت میں ہے پاکستان کے مسائل گھمبیر ہیں انتخابات کے موقع پر بھی ان خطرات کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح ان کا مقابلہ کرنا ہے یہ بہت بڑا مشن ہے۔ ہم سب کو اکٹھے ہونا ہو گا۔ دہشت گردی، معیشت اور بجلی کے بحران پر کوئی سیاست نہیں کریں گے۔ متفقہ فیصلوں کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کی مدد کریں گے تو پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام مشکلات سے باہر نکلیں گے۔ مشکلات درپیش رہیں تو اس کا نقصان ہم سب کو ہو گا۔ عوام کا نقصان بھی ہو گا ہمیں بھی نقصان ہو گا۔ ہم بھی فائدے میں نہیں رہیں گے ہم سب کے لئے گھاٹے کا سودا ہو گا اس لئے میرا نظریہ ہے کہ ہم سب کو نئی صبح کا آغاز کرنا ہے ہم سیاست کرتے رہیں گے یہ ہمارا حق بنتا ہے بعض چیزوں کے حوالے سے اتفاق ہونا چاہئے ان پر سیاست نہیں ہو گی۔ اگر ہم ملک کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پاک کر دیتے ہیں تو واقعتاً ہم اس سے پاکستان کو اکیسویں صدی میں لے کر جائیں گے خدا نخواستہ ہم نے ذاتی رنجشوں کی وجہ سے نفاق کا مظاہرہ کیا تو پھر پاکستان کا نقصان ہو گا فائدہ کسی کا نہیں ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکےورٹی اداروں اور عام افراد ہزاروں کی تعداد میں نشانہ بن چکے ہیں۔ جن کی تعداد چالیس ہزار سے زائد ہے۔ دہشت گردی نے معیشت کو بری طرح نقصان پہنچایا لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری سے گھبراتے ہیں۔ سرمایہ کار خیبر پی کے، پنجاب، بلوچستان اور کراچی میں سرمایہ کاری سے گھبراتے ہیں ان میں سے بہت سے دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں پاکستان میں جگہ جگہ اغوا برائے تاوان کا مسئلہ درپیش ہے۔ کراچی کے مسئلہ پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے کوئی مخالفت نہیں کی۔ اتفاق رائے سے تمام مقامی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے فیصلہ کیا سید قائم علی شاہ نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی ہم سب مل کر اتفاق رائے سے فیصلے کر لیں تو ملک کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے جس سے پاکستان میں عوام کا جمہوریت پر مزید اعتماد بڑھے گا لوگ کہیں گے کہ جمہوریت ہی مسائل حل کرتی ہے جمہوریت پر لوگوں کی توقعات اور اعتماد بڑھے گا۔ جمہوریت اگر عوامی توقعات پر پورا اترتی ہے تو یہ ملک کے لئے بہترین فیصلہ ہو گا اور احسن اقدام ہو گا۔ ہمیں جنگی بنیادوں پر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ تمام صوبوں سے بھرپور تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ پی پی پی کو سندھ میں مینڈیٹ ملا۔ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک وزیر اعلیٰ ہیں۔ خیبر پی کے میں پرویز خٹک وزیر اعلیٰ ہیں۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی رہنمائی سے کراچی میں امن و امان پر فیصلے کئے۔ گورنر سندھ سے بات ہوئی۔ کسی کی باتوں میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ تمام جماعتیں ہم سے زیادہ پرجوش تھیں کہ کراچی میں آپریشن کیا جائے۔ گذشتہ دنوں آزاد کشمیر میں کھلبلی مچ گئی اور حکومت گرانے کی کوشش کی گئی اور پھر کوئی ایک صاحب آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کے امیدوار بھی بن گئے اور ہماری پارٹی کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی اور مل کر حکومت گرانے کی کوشش کرنا چاہتے تھے حکمران جماعت میں بھی گروپنگ ہو گئی مگر ہم نے ساری سازش اور مہم کو ختم کر کے رکھ دیا اور کہا کہ جس پارٹی کو مینڈیٹ ملا ہے کسی سازش کے تحت اس مینڈیٹ کو ختم نہیں کیا جائے گا۔ ہم نے وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کوششوں کو ناکام بنا کر نئے جمہوری کلچر کی بنیاد رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان جس صوبے اور علاقے میں گڑبڑ ہے ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ ہم آگے آگے ہوں گے اسی نظریہ پر عمل کر کے دکھائیں گے تاکہ پاکستان میں سکون ہو۔ ہم ملک میں امن و سکون چاہتے ہیں پرامن انتقال اقتدار احسن انداز میں ہوا ہے اور جمہوری صدر آئینی مدت مکمل کر کے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ نئے صدر آ چکے ہیں۔ اس طرح کی روایات دیکھنے کے لئے پچھلے ساٹھ برسوں سے آنکھیں ترس رہی تھیں اور چاہتے ہیں کہ ایسی روایتیں ملک میں ہمیشہ دیکھنے میں آئےں کوئی رخنہ نہ پڑے اور نظام کامیابی سے چلتا رہے۔ یہ جمہوریت کی بھی آزمائش ہے کہ ہم عوامی توقعات پر پورا اتریں۔ کتنی خوبصورت بات ہے کہ ہم سب اکٹھے بیٹھے ہیں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑا کوئی جیتا اور کوئی ہارا لیکن ہم پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لئے اکٹھے بیٹھے ہیں۔ اختلاف رائے کو مل بیٹھ کر حل کر سکتے ہیں وزیراعظم نے دہشت گردی کی حالیہ واقعات کی مذمت کی اپنے دورہ چین کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ چین ہمارا دوست ہے۔ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ مسائل کو حل کرنا ہے یا نہیں حل کرنا۔ فیصلوں پر عملدآمد کے لئے نگرانی کروں گا۔ مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہیں گذشتہ اے پی سی میں یہی فیصلہ ہوا تھا کہ مذاکرات کو ترجیح دی جائے اور اتفاق رائے سے فیصلہ کر کے آگے بڑھنا ہے۔ اندرونی و بیرونی خطرات پر ڈی جی آئی ایس آئی نے بریفنگ دی۔ حساس معاملات پر بحث کی گئی۔ عسکری قیادت نے سلگتے ہوئے سوالات کے جوابات دیئے۔ خورشید شاہ اور عمران خان سمیت تمام سیاستدانوں نے آرمی چیف کی بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کیا۔ رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں مکمل اتفاق ہے کہ ملک میں امن ہونا چاہئے۔ عمران خان نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے پر وزیراعظم کے شکرگزار ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جب افغان جہاد کو دہشت گردی قرار دیا گیا تو پاکستان کو نیوٹرل رہنا چاہئے تھا۔ پاکستان نے بغیر اتفاق رائے کے اپنا م¶قف تبدیل کر لیا۔ م¶قف تبدیل کرنے سے پاکستان نے اپنے ہی جہادیوں کو دشمن بنا لیا۔ قبائلی علاقوں میں فوج کو بھیجنا بڑی غلطی تھی۔ لوگوں کو سمجھانے میں مشکل ہوئی کہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے۔ ہمیں ڈرون حملوں پر متحد ہو کر سخت پیغام دینا چاہئے۔ ایک ہی وقت میں لڑنا اور مذاکرات کرنا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہو گا۔ سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں اتفاق رائے پر مبنی فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہمیں سیاسی سطح پر متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ہمیں دہشت گردی کی جڑ کو ختم کرنا ہو گا۔ ہم صرف ماضی کے مروجہ طریقوں کو اپنا کر دہشت گردی ختم نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم نے سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرکے مسئلے کے حل کی جانب پہل کر دی۔ (ق) لیگ کے رہنما چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ عالمی سیاست کے بجائے خطے کی سیاست سامنے رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ وزیراعظم صاحب کو بھرپور سیاسی حمایت حاصل ہے۔ اب آگے بڑھیں۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود اچکزئی نے اے پی سی میں اظہار خیال کرتے کہا کہ ہر ایک کا مطالبہ صرف انصاف ہی انصاف ہے۔ ماضی میں ترقی پسند قوتوں کو سیاسی عمل سے باہر رکھا گیا۔ دہشت گردی کے معاملے پر افغانستان اور پاکستان کو ایک پچ پر ہونا چاہئے۔ ماضی میں عسکری قیادت نے سیاسی رہنماﺅں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ موجودہ عسکری قیادت کا تمام امور پر ہمیں اعتماد میں لینا قابل تحسین ہے۔ خوشی ہے کہ آج عسکری اور سیاسی قیادت ایک نکتے پر متفق ہیں۔ محمود اچکزئی نے کہا کہ یقین دلاتے ہیں دہشت گردی کے خلاف حکومتی پالیسی کی حمایت کریں گے۔ ہمیں ماضی کو بھول کر آئندہ قانون اور جمہوریت کے راستے پر چلنا ہو گا۔ لیاقت بلوچ نے اظہار خیال کرتے کہا کہ اے پی سی قابل تحسین اقدام ہے۔ ماضی میں پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ نئی انسداد دہشت گردی پالیسی اور خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے تک قابل عمل نہیں ہو سکتی، حاصل بزنجو نے کہا کہ ہمیں اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔ کابل کا استحکام پاکستان کا استحکام ہے۔ ہمیں غیر ملکیوں کو اپنی سرزمین سے نکالنا ہو گا۔ جنگ آخری آپشن ہوتا ہے مذاکرات کے لئے جو شرائط ہیں ان پر غور کرنا ہے۔ آفتاب شیرپاﺅ نے اظہار خیال کرتے کہا کہ سکیورٹی کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔ پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عمل امن کے لئے واحد راستہ ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کے معاملے پر سیاسی و فوجی قیادت اےک ہی صفحہ پر ہے، ڈرون حملوں پر پاکستان کا امرےکہ سے کوئی سمجھوتہ نہےں، اے پی سی میں کئے گئے تمام فیصلوں پر عملدرآمد کےا جائے گا۔ انہوں نے ےہ بات پیر کو وزےراعظم ہاﺅس مےں وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیر صدارت منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس مےں قومی سلامتی پر اظہار خےال کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے اے پی سی کے شرکا کو نصف گھنٹہ تک برےفنگ دی۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے سیاسی قیادت کو دہشت گردی سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے بارے مےں اے پی سی کے شرکا کو بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں سے متعلق امریکہ یا کسی اور ملک سے کسی قسم کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہے۔ انہوں نے فاٹا اور افغانستان کے ان علاقوں کی نشاندہی کی جو دہشت گردی کے منبع ہےں۔ اے پی سی مےں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے سیاسی رہنما¶ں کے سوالات کے جوابات بھی دئیے۔ دریں اثناءسیاسی قائدین نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی قربانیوں کو خراج عیدت پیش کیا ہے، اسی طرح ڈرون حملوں سے متاثرہ خاندانوں اور دہشت گردی کے واقعات میں جاںبحق افراد کے لواحقین کے ساتھ بھی دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے۔ قبائل کو قومی دھارے میں لانے کی تجاویز کی حمایت کر دی گئی۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) آل پارٹیز کانفرنس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی۔ ذرائع کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی نے فائل اور سلائیڈز کی مدد سے اے پی سی کو بریفنگ دی۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام نے کہا کہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں۔ ولی الرحمان کی موت کے بعد اس کے ساتھی سجنا نامی شخص کی پیروی کرتے ہیں۔ سجنا اور عصمت اللہ معاویہ بھی مذاکرات کے حامی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اے پی سی میں اتفاق کیا گیا کہ شدت پسندوں سے مذاکرات کے لئے حکومت مشاورت سے افراد منتخب کرے گی۔ حکومت تمام شراکت داروں سے مشاورت کے بعد ٹرمز آف ریفرنس تیار کرے گی۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف جنرل کیانی نے بریفنگ دی کہ حکومت اور فوج میں اتفاق ہے۔ بعض لوگ بالخصوص صحافی غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت ہمیں جیسا کہے گی ویسا کریں گے جبکہ شدت پسند عناصر سے مذاکرات کو بامعنی بنایا جائے۔ کیونکہ آپریشن ایک مشکل آپشن ہو گا۔ آئی این پی کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت طالبان سمیت 69 گروپ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ذرائع کے مطابق پیر کو ملک کی سلامتی کی صورتحال کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے قومی رہنماﺅں کو آئی ایس آئی کے سربراہ نے بتایا کہ 69گروپ دہشت گردی، شدت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں اور اس حوالے سے اداروں کے پاس تمام معلومات موجود ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن