آصف علی زرداری کس طرف....... !
آصف علی زرداری ایوان صدر کے مکین نہیںرہے۔ پیپلزپارٹی بڑی سیاسی جماعت ہے۔ زرداری آئندہ کچھ دنوں میں پیپلزپارٹی کیلئے کسی شریک چیئرمین کاانتخاب کرکے سیاست کرینگے۔ وہ پہلے ایوان صدر میں ہونے کے باوجود سیاست کرتے رہے ہیں لہذا ایوان صدرسے باہر رہ کر سیاست کرنا ان کیلئے زیادہ مشکل کام نہیں ہوگا‘ یقینا پانچ سال تک سیاست سے باہر رہنا ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ آئندہ جنوری سے ملک کے اندر سیاست کا نیا باب شروع ہوجائیگا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی چیف آف آرمی سٹاف اور افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان نہیں ہونگے۔ اس صورت میں آصف علی زرداری سیاست کرینگے۔ ایوان صدر سے اڑان لینے کے بعد وہ بلاول ہاﺅس لاہور پہنچ گئے ہیں۔ لاہور کا بلاول ہاﺅس عمر جاتی راﺅنڈ سے زیادہ دور نہیں اور دونوں سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے سیاسی نظریات بھی زیادہ مختلف نہیں رہے۔ مسلم لیگ ن اس وقت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اسکی وفاق میں بھی حکومت ہے تو پیپلزپارٹی وفاق ہی میں اپوزیشن بنچوں پر موجود ہے۔ آصف علی زرداری نے ایوان صدر سے اپنے قدم باہر رکھتے ہی 11مئی کے انتخابات میں دھاندلی کی بات کردی ہے۔ ” ایک زرداری سب پر بھاری“ کانعرہ بہت پہلے لگوا دیاگیا تھا۔ آصف علی زرداری ایوان صدر میں جیسے تیسے پہنچ گئے توہر طرف سے افواہوں کا بازار سر گرم ہو گیا۔ بہت سارے مواقعوں پر پیپلزپارٹی کی حکومت کی داخلی وخارجی محاذوں پر بے حسی نے طاقتور حلقوں کوزرداری فارمولے پر عمل کرنے پر مجبور کیا مگر پیپلزپارٹی والے نعرے لگاتے رہے کہ ہماری حکومت پانچ سال پورے کرے گی۔ آصف علی زرداری بھی بار بار کہتے رہے کہ ہم پانچ سال پورے کرکے جمہوری تاریخ رقم کریں گے۔ اس دوران جی ایچ کیو پر حملہ ہوا ‘ کراچی نیول سنٹر پر حملہ ہوگیا‘ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہوا‘ ایبٹ آباد آپریشن ہوگیا‘ سکیورٹی کی صورتحال انتہائی مخدوش ہوتی رہی۔ آزاد عدلیہ کے ساتھ حکومت نے اپنی محاذ آرائی کو پوری شدت کے ساتھ جاری رکھا۔ معاشی وا قتصادی اور توانائی بحران حد سے زیادہ تجاوز کرگئے۔ پیپلزپارٹی کے اپنے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو عدالت سے سزا کے بعد نااہل قرار دے دیاگیا اور سب سے بڑھ کر زرداری اور ان کے حکمرانوں کا خوب میڈیا ٹرائل ہوتا رہا مگر پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کئے اور اب آصف علی زرداری ایوان صدر میں اپنے پانچ سال مکمل کرکے سیاست کے میدان میں نکل آئے ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ زرداری جو ایوان صدر میں بیٹھ کر کنگ میکر بنے رہے‘ وہ پیپلزپارٹی کے سر پر اقتدار کے ہما کاتاج ایک مرتبہ پھر سجانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ موجودہ وقت آصف علی زرداری کیلئے پہلا دور ہے‘ جب سیاسی بنیادوں پر انہوںنے پیپلزپارٹی کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے۔ لیکن 11مئی 2013کے انتخابات سے پہلے ایک ایسا وقت آیا جب ایوان صدر میں سیاسی محبوس بن کررہ گئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے باپ کے اشاروں پر انتخابی عدم تعاون کیا۔ بلاول کے اپنی پھوپھو فریال تالپور سے اختلافات ہوگئے۔ وہ غنوی بھٹو اور اپنے خاندان کے دیگر ناراض لوگوں کو ساتھ لے کرسیاست میں آنا چاہتاتھا۔ جس پر زرداری سے اسکے اختلافات ہوگئے اور وہ دیار غیر چلاگیا ۔آج ایوان صدر سے نکلنے والے جس زرداری کی طرف سے پیپلزپارٹی کے مینڈیٹ کو چرانے کی بات کی گئی ہے۔ ایک ایسے ناکام شخص بن گئے جو سب کچھ سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکے۔ آصف علی زرداری ایوان صدر کے مکین نہیں رہے تو صدارتی استثنیٰ بھی نہیں رہا۔
جب وہ صدر مملکت تھے تو اس وقت ہی ملک کی سب بڑی عدالت این آر او کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔ ان پر قائم فوجداری اور بد عنوانی کے سات مقدمات جلد کھل جائینگے جس پر انہیں ایوان صدر سے باہر آجانے کے باعث عام شہری کی طرح عدالتوں میں زیر التواءمقدمات میں پیش ہونا ہوگا۔ آصف علی زرداری ماضی کے سالوں میں گیارہ برس تک جیل کی کال کوٹھری میں رہ چکے ہیں۔وہ قید تنہائی میں رکھے گئے تھے۔ قید کے دوران وہ زیادہ تر ٹیلی ویژن سکرین پر انٹرنیشنل میڈیا کاملاحظہ کرتے رہے ہیں۔ تاریخی کتب ‘ بین الاقوامی جرائد اور سیاسی معمولات کی ورق گرانی میں ان کاگیارہ سال کاوقت گزرا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کے کیا تقاضے ہیں جو زیرو سے ہیرو بنا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہیرو سے زیر و ہونے کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی سیاست کا تمام رخ بین الاقوامی طاقتوں کی طرف ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کامینڈیٹ چرانے کی بات بلاوجہ نہیں کررہے ۔ لیکن انہیں علم ہے کہ بین الاقوامی طاقتوں کاتعاون عوامی پذیرائی ثابت کئے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے وہ لاکھ کہیں مسلم لیگ ن کی حکومت سے ہرحال میں تعاون کیاجائے گا۔ وہ قومی اسمبلی میں موجود پیپلزپارٹی کے اراکین کو بھرپور احتجاج کے عملی مظاہرے پر مجبور کردیں گے۔ موجودہ جمہوری حکومت کاانحصار یا دارو مدار آئندہ اعلیٰ عدالتی انتظامی ڈھانچے اور بین الاقوامی طاقتوں کے خفیہ پلان پر ہوگا ۔بہتر ہوتا اگر موجودہ حکمران 11مئی کے بعد اپنی اصل بقاءکی طرف لوٹ آتے مگر شاید وہ 18فروری 2008 سے پہلے رونما ہونے والے سانحہ سے خوفزدہ ہیں۔ آصف علی زرداری نے سیاست کانیا آغاز کردیا ہے ۔ وہ ایوان صدر میں رہ کر خارجی امور پر بالخصوص بہت زیادہ دسترس حاصل کرچکے ہیں۔ زرداری لاکھ کہیں عالمی قوتیں ملک میںآگ لگانا چاہتی ہیں ‘ وہ کچھ اور ہی سیاسی کھیل کھیلنے جارہے ہیں!!!